لندن میں سیاسی پلاننگ

لندن ہمیشہ پاکستانی سیاستدانوں کا اہم ٹھکانہ رہا ہے، اہل سیاست جب حکومت میں نہیں ہوتے ہیں تو لندن میں ہی ان کا قیام ہوتا ہے، یہ اعزاز کسی ایک جماعت کو حاصل نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنما لندن میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پیپلزپارٹی کے سابقہ و موجودہ قائدین لندن میں قیام کرتے رہے ہیں، جب پارٹی کی قیادت لندن میں مقیم ہوتی ہے تو قومی و صوبائی سطح کی قیادت کو لندن میں حاضری کیلئے کہا جاتا ہے، حتیٰ کہ ٹکٹ جاری کرنے سے پہلے امیدواروں کو لندن میں اعلیٰ قیادت کے سامنے پیش ہونا ضروری قرار دیا جاتا ہے، کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ یہاں سے ٹکٹ کی امید میں بھاری پیسے خرچ کر کے امیدوار لندن پہنچے مگر انہیں ٹکٹ نہ مل سکا، ماضی کی طرح اب بھی پارٹی ٹکٹ کے امیدوار لندن میں حاضری دے رہے ہیں، حالانکہ قریب قریب انتخابات دکھائی نہیں دے رہے ہیں شاید پارٹی میں جگہ پکی کرنے کیلئے ساری تگ و دو ہو رہی ہے۔ اہل سیاست میں ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں پاکستان میں قیادت تک رسائی آسان نہیں ہوتی ہے اس کے برعکس لندن میں قیادت وقت بھی دیتی ہے اور وہاں ہونے والی ملاقات کو یاد بھی رکھتی ہے، میاں نواز شریف کی وطن واپسی کنفرم نہیں ہوئی ہے مگر اس سے پہلے ہی ٹکٹ کے امیدوار لندن میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
مشرف کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے سیاسی جماعتوں نے 2007ء کو لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا، اب عمران خان کے خلاف منصوبہ بندی بھی لندن سے کی جا رہی ہے۔ اتحادی جماعتیں اقتدار میں ہیں اور بظاہر انہیں کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اتحادی جماعتیں خوف میں مبتلا ہیں، یہ خوف مبینہ طور پر تحریک انصاف اور عمران خان کا ہے۔ عمران خان حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا عندیہ دے چکے ہیں اور ان کے بقول وہ اس بار بھرپور تیاری کے ساتھ آئیں گے لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ کامیاب نہ ہوا تو ان کے پاس پلان بی کیا ہے؟ اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف کی قیادت تذبذب کا شکار ہے بلکہ پے در پے آنے والی آڈیو لیکس نے عمران خان کے بیانیے کو کمزور کیا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ والی آڈیو اگر درست ہے تو پھر اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس آڈیو میں عمران خان برملا کہہ رہے ہیں کہ پانچ تو میں خرید رہا ہوںاگر ”وہ” ہمیں پانچ سکیور کر دے تو گیم ہمارے ہاتھ میں ہے۔حالانکہ اس سے قبل انہوں نے ہارس ٹریڈنگ پر مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہاں تک کہہ دیا تھا کہ لوگ ان کے ساتھ رشتے نہ کریں، ان کے حامی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین کا گھیراؤ کر رہے تھے اس حوالے سے متعدد ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے حتیٰ کہ مسجد نبوی میں بھی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین پر آوازے کسے گئے۔ اس سخت ترین مؤقف کے بعد جب حامیوں کو معلوم ہو گا کہ عمران خان خود ہارس ٹریڈنگ میں ملوث تھے تو اس کی سب سے زیادہ زد بیانیے پر پڑے گی۔
تحریک انصاف میں اختلاف رائے کھل کر سامنے آ گیا ہے، عمران خان نے دھرنے کا پلان اپنے قریبی رفقا سے مخفی رکھا ہوا ہے، ان کے بقول تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو بھی دھرنے کے اصل پلان بارے معلومات نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان اپنے قریبی و دیرینہ ساتھیوں پر بھی اعتماد کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں ایسی صورت میں ورکرز کو احتجاج و دھرنے کیلئے باہر نکالنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہر حلقے کے امیدوار ہی کارکنان کو احتجاج پر آمادہ کر کے زیادہ تعداد میں باہر نکال سکتے ہیں لیکن جب انہیں ہی دھرنے بارے کچھ علم ہی نہیں ہو گا تو کارکنان کو کیسے تیار کریں گے؟ اس ضمن میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کے پاس اتحادی حکومت کی مخالفت کے علاوہ کوئی پروگرام نہیں ہے، جس طرح اتحادی جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مہنگائی کا بیانیہ قائم کیا اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت ختم کر دی عمران خان ایسا کوئی بیانیہ قائم نہ کر سکے۔ امریکہ مخالف بیانہ بری طرح پٹ چکا ہے، کرپشن اور احتساب سے بھی کچھ برآمد نہیں ہو سکا،ا لٹا اعلیٰ عدالتوں سے ملزمان کو ریلیف مل گیا ہے جس سے تاثر قائم ہوا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں سیاسی انتقام کے تحت مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ عمران خان کی سیاسی جدوجہد پر نگاہ ڈالنے سے معلوم پڑتا ہے کہ انہوں نے عوامی حمایت حاصل کرنے اور عوام کی آواز بننے کی بجائے سیاسی جماعتوں کی مخالفت پر زیادہ توجہ دی ہے، یہ تھیوری کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی اور لوگوں نے خیال کر لیا کہ اگر ملک سے باہر پڑا پیسہ واپس آ جائے تو ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے، انہیں اقتدار مل گیا، سیاسی حریفوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، طویل عرصے تک احتسابی عمل جاری رہا، مگر کچھ حاصل وصول نہ ہوا، عمران خان اب بھی اسی تھیوری کو لے کر چل رہے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب عوام کی اکثریت اس تھیوری پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ عوام کی آواز بنیں، اس وقت مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات کا نعرہ لگائیں، دعوؤں سے ہٹ کر پورا پروگرام پیش کریں کہ وہ کیسے قوم کو مہنگائی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ عمران خان عوام کی مدد تو چاہتے ہیں مگر وہ امید رکھتے ہیں کہ کوئی غیبی قوت انہیں دوبارہ اقتدار تک پہنچا دے اور عوام بھی ان کے ساتھ ہوں ایسا ہونا اب آسان نہیں ہے۔ عمران خان کا فوکس احتجاج پر ہے کہ وہ اتنے لوگ نکال لیں گے جس سے مقتدر قوتیں ان کی حمایت پر مجبور ہو جائیں گے لیکن اگر یہ لانگ مارچ ناکام ہو گیا تو سمجھا جائے گا کہ عمران خان کے پاس پیش کرنے کیلئے اب کچھ باقی نہیں بچا ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار