ہمیں جرأت اظہار کا سلیقہ ہے

وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا یا پھر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے ‘ اب یہ تو معلوم نہیں کہ یہ خلیل خان کون تھے جوفاختہ اڑانے میں غالباً یدطولیٰ رکھتے ہوں گے اور پھر وہ کیا حالات درپیش ہوئے کہ بے چارے کو اس شغل بے کاراں میں بھی دشواری کا سامنا کرناپڑتا تھا ‘ ا گرچہ ہم کوئی فاختہ اڑانے نہیں جا رہے بلکہ اس کم بخت سوشل میڈیا پر بات کرنا چاہتے ہیں جس نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے ‘ اوراب کوئی لاکھ انکار کرے کہ اس نے یہ نہیں کہا ‘ وہ نہیں کہا ‘ بلکہ اپنے بیان سے انکار کرتے ہوئے اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنا قراردے مگر یار لوگ اگر ٹی وی چینلز پر نہ سہی تو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بار بار سامنے لا کر اس شخص کے دعوئوں کے غباروں سے ہوا خارج کر دیتے ہیں اور رہ گئی بات خلیل خان کے فاختہ اڑانے کی تو جب تک چھوٹی بڑی سکرینوں کی رنگین دنیا آباد نہیں ہوئی تھی تب تک سیاسی رہنما بیان داغ دیتے تھے اور ان پر شدید ردعمل آجاتا تو جھٹ سے کہہ دیتے کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے ‘ میں نے یہ نہیں جو اخبارات میں شائع ہوا ہے بلکہ میرا کہنے کا مقصد تو دراصل یہ تھا وغیرہ وغیرہ یعنی بقول شاعر
ہمیں کو جرأت اظہار کا سلیقہ ہے
زباں کا قحط پڑا تو بھی ہم ہی بولیں گے
ویسے جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا ہے’ ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے تو اب اس سے بھی لوگ بھر پور فائدہ اٹھانے لگے ہیں اور اگر کوئی شخص اپنے بیان سے انحراف کرتے ہوئے اسے سیاق و سباق سے ہٹا ہوا قرار دیں گے یار لوگ اس کے آڈیو ویڈیو سامنے لاکر شرمندگی کا سامان کرلیتے ہیں تو اس کا بھی تو ڑیوں نکال لیا گیا ہے کہ ان آڈیو ز ویڈیوز کو ٹمپرڈ یا ایڈٹ شدہ قراردے کر جان چھڑا لیتے ہیں ‘ اب کون ان کو فارنزک کی چھلنی سے گزارنے کا تکلف کرے ‘ اور ٹرپل و ٹرپل ٹو والے ” نقاب پوش” کی طرح دعوے کرتا پھرے کہ جو آڈیوز اور(آنے والے ممکنہ ویڈیوز)فارنزک سرٹیفیکیٹ کے ساتھ وائرل کی جائیں گی جس کے بعد ان ویڈیوز میں”موجود” افراد کو اس دعوے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کہ یہ فیک ہیں ‘ یا کسی ڈیپ اور بلیک ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائی گئی ہیں ‘ اس ضمن میں سب سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے کسی ماتحت اعلیٰ عہدیدار کے ساتھ بات چیت کا آڈیو منظر عام پر آیا تو مخالفین نے بغلیں بجانا اور شور وغل مچا کرآسمان سر پراٹھا لیا ‘ مگر جب حقیقت سامنے آئی کہ وزیر اعظم کسی بھی غیر قانونی اقدام کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اپنی بھتیجی مریم نواز کوخود سمجھانے کی بات کر رہے ہیں تو سارا شور تھم گیا اور پروپیگنڈہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ‘ اگلے آڈیوز نے ا لبتہ تہلکہ مچا دیا جب سائفر کے معاملے پر کھیڈاں گے کے بیانئے کو طشت ازبام کیا’ اس کے بعد کچھ اور آڈیوز سامنے آئیں تو دعویٰ کیا گیا کہ ان کو ایڈٹ کیا گیا ہے’ بات درست تھی کیونکہ آڈیوز کے مختلف حصوں میں آواز کا زیر وبم بتا رہا تھا کہ خاص جملے جوڑے گئے ہیں کیونکہ آواز کا لیول ایک نہیں تھا ‘ تاہم واقفان حال نے اس کی وضاحت یوں کرکے حساب برابر کر دیا تھا کہ جو حصے ایڈٹ کئے گئے ہیں وہ زیادہ ”خطرناک” ہیں اور ان کو اگر سامنے لایا گیا تو متعلقہ افراد کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ گویا نامعلوم ہیکر یہ نہیں کہنا چاہتاکہ بقول داغ دہلوی
خط دے کے ہم نے شوقیہ قاصد سے یہ کہا
کچھ گالیاں ہیں جو براہ راست دیجیو
اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا کارن صدر مملکت عارف علوی کا چار پانچ روز پہلے سامنے آنے والا وہ انٹرویو ہے جس میں ایک ٹی وی اینکر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف”امریکی سازش” کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی مگر پھر اپنے لیڈر کی طرح یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے ‘ گویا وہ اپنے انٹرویو کو”ایڈیٹ شدہ”قرار دینے کے بیانئے پر آگئے ہیں حالانکہ جوکچھ انہوں نے کہا تھا وہ کوئی اتنی پرانی بات بھی نہیں ہے کہ یا تو اسے ”ٹمپرڈ” کیا جائے یا ایڈٹ شدہ ‘ انہوں نے اس سے پہلے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پربھی ”بول کہ لب آزاد ہیں ترے” کے کلئے پرعمل کرتے ہوئے غیر آئینی مشورہ دیا اور کہا کہ اس حوالے سے مشاورت کی جانی چاہئے ‘ حالانکہ ان کی یہ بات بھی ماضی قریب میں وزیر اعظم سے حلف لینے سے انکار کو بیماری کا بہانہ بنا کر جان چھڑائی تھی جبکہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے’ اسی طرح کچھ تقرریوں کے احکامات پربھی صدر کے منصب کے تحت ان کے دستخط کرنا ضروری تھے لیکن منصب کے آئینی پابندیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے جس کے تقاضے صدرمملکت سے غیرجانبداری کاتقاضا کرتے ہیں ‘ خود کو تحریک انصاف کے ایک رکن کے طورپر پارٹی قیادت کی خوشنودی کے لئے دستخطوں کو”حیلوں بہانوں” میں لپیٹ کر آئین کی خلاف ورزی کی۔ اب تازہ بیان میں ایک بار پھر انہوں نے فرمایا ہے کہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ عمران خان حکومت کوہٹانے کے لئے سازش کی گئی ‘ صرف چند روز قبل ہی کہی ہوئی اپنی بات کو سیاق و سباق سے ہٹا ہوا قرار دینے کے بعد یوٹرن انہوں نے کیوں لیا ‘ اس کی وجہ سب جانتے ہیں ‘ تاہم انہوں نے جس طرح”سازش” کے نظریئے کانیا یا بدلا ہوا بیانیہ اختیار کیا ہے اس سے تو نظام عدل پربھی سوال اٹھیں گے کیونکہ تحریک انصاف حکومت کو خود اس کے اختیار کئے ہوئے غیر آئینی اقدامات کو دیکھ کر عدلیہ نے آئین پر عمل درآمد کرایا اور پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ موجودہ حکومت آئینی اور قانونی طور پرقائم ہوئی ہے ۔ بقول حیرت الہ آبادی
کیاکہئے اس طرح کے تلون مزاج کو
وعدے کاہے یہ حال ادھر ہاں ‘ ادھر نہیں
رکھتے قدم جووادی الفت میں بے دھڑک
حیرت سوا تمہارے کسی کا جگر نہیں

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''