آئین ِنو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا

ملک میں اس وقت ایک ہیجان بے چینی او ر اضطراب کی کیفیت ہے ۔عمران خان کے جلسوں میں بالعموم عوام اور بالخصوص نوجوانوں کی شرکت اس معاشرتی اضطراب کا اظہا رہے ۔یہ” پاکستان سپرنگ” ہے اور ایک نسل نے تنگ آکر سڑکوں اور جلسہ گاہوں کا رخ کر لیا ہے ۔ایک اضطراب اور بے چینی اس وقت پڑوسی ملک ایران میں برپا ہے جہاں نئی نسل ایک بار پھر اُٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔حجاب کے معاملے پر گرفتار ہونے والی ایک لڑکی کی جیل میں ہلاکت سے ایران کی نئی نسل بپھر گئی ہے اور وہ ریاست کی طاقت کے آگے کھڑی ہوگئی ہے ۔لڑکیاں احتجاجاََ اپنے سر کے بال کٹوا کر نظام کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں ۔اس عمل سے یکجہتی کے لئے دنیا بھر میں لبرل تنظیموں کی ارکان علامتی طور پر اپنے بال کٹوا رہی ہیں کئی تو اپنے سر گنجے کر چکی ہیں ۔یہ حجاب اور ایران کی اسلامی روایات کے خلاف بغاوت ہے ۔ایران کے راہبر انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای کی ذات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔مغرب ایران میں ”رجیم چینج ” کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں ہر دور میں ایسی چنگاریوں کو شعلوں میں او رشعلوں کو الائو میں بدلنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں صرف جمہوریت اور آزادی نہیں چاہتابلکہ اپنا کلچر بھی تھوپ دیتا ہے ۔ایران اس وقت امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر ہے ۔ایران میں رجیم چینج امریکہ کا اتنا ہی پرانا خواب ہے جتنا کہ خود انقلاب ایران ۔ایران کے سسٹم نے بہت مہارت سے ردِ انقلاب کی ان عالمی کوششوں کوناکام بنایا ہے ۔شاید وہ اپنے انقلاب کو اپنی نئی نسل کی سوچ اور وقت وحالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکے ۔مغرب کے ساتھ مستقل کشمکش اور آویزش نے بھی نئی نسل کو حالات سے تنگ کر دیا ہے کیونکہ مغرب میں ایران کو ایک ریڈیکل ملک کے طور پر مشہور کیا گیا ہے او ر اس ٹیگ سے ایران کی نئی نسل بیزار بیزار سی نظر آتی ہے۔سعودی عرب جیسے قدامت پسند ملک میں محمد بن سلمان کی طرف سے آزادیوں کی لہر نے بھی ایرانی نوجوانوں کی فرسٹریشن کو بڑھا دیا ہے ۔اسی لئے جب بھی حالات کی تہہ میںدبی ہوئی اس چنگاری کو بیرونی ہوا کا کوئی جھونکا چھو کر گزرتا ہے یہ شعلوں میں ڈھل جاتی ہے ۔پاکستان میں بھی نئی نسل اپنے ملکی حالات سے تنگ آکر جلسہ گاہوں کا رخ کر رہی ہے ۔پاکستانی قوم دائرے کے سفر کا شکار ہے ۔پچہتر برس گزرگئے مگر اس قوم کا سفر زوال کی جانب جاری ہے ۔آغاز سفر میں ہی جمہوریت کا بیڑہ غرق ہوا ۔پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سینے میں اُترنے والی گولی عوام کے حقِ حکمرانی کو جا لگی او ر ملک میں جمہوری نظام جڑ نہ پکڑ سکا ۔عدم استحکام کا یہ سفر ایوب خان کے مارشل لاء پر منتج ہوا۔اس کے بعد ملک ہی دولخت ہوگیا اور تاریخ انسانی میں پہلی بار اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کرنے کا نعرہ لگایا اور علیحدگی اختیار کر لی ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ایک بوجھ اُتر گیا مگرتھوڑی آبادی اور کم رقبے کے لئے زیادہ بڑی منصوبہ بندی اور وسائل کی بجائے ذہانت اخلاص اور دیانت کی ضرورت تھی ۔یہ کام بھی نہ ہوا اور پاکستان سیاسی استحکام کو ترستا رہااور اس کی معیشت زوال کی راہوں پر گامزن ہو گئی۔یہیں سے کرپشن کے رجحان نے جڑ پکڑ لی اور یہ ناسور ریاست اور سوسائٹی کے وجود میں سرایت کرتا چلا گیا ۔کرپشن نے ملک کی معیشت ہی برباد نہیں کی قانون کی حکمرانی کا تصور بھی کمزور کیا اور اخلاقیات کا جنازہ بھی نکال دیا ۔لوگ کرپشن کو برا سمجھنے اور کہنے کی بجائے اس پر اِترانے اور فخرکر نے لگے۔اس مشق ِستم میںملک کا ہر دن بد سے بدتر ہوتا چلا گیا ۔اس پر کڑھنے والے تعداد میں کم ہوتے چلے گئے۔نئی نسل نے ایک بدلے ہوئے ماحول اور منظر میں آنکھ کھولی ۔جدید ذرائع ابلاغ ،سوشل میڈیا ،انٹرنیٹ کی دنیا اور ترقی یافتہ ملکوں تک آسان رسائی نے انہیں لمحہ بھر کو سوچنے پر مجبور کیاکہ ان کے ملک ومعاشرے کے ساتھ کیا واردات ہوئی ہے ۔بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کا غصہ چنداں بے سبب نہیں ۔یہ ان کے ذہنوں میں پلنے والے سوالات کا نتیجہ ہے ۔یہ سوالات غصہ بن کرلندن اور لاہور نیویارک اور کراچی ،سڈنی اور اسلام آباد کے موازنے سے جنم لیتے ہیں ۔جو پاکستانی دُوردیس میں اپنی صلاحیتوں اور قانون پسندی کا مظاہرہ کرکے ان معاشروں کی ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں جب اپنے وطن کے حالات دیکھتے ہیں ۔قانون کے موم کی ناک ہونے کے منظر سے آشنا ہوتے ہیں ۔بدعنوانی کو معاشرے کاعمومی چلن دیکھتے ہیں چہار سو میرٹ کا قبرستان دیکھتے ہیں تو ان کا فرسٹریٹ ہوجانا فطری ہوتا ہے ۔پاکستان کا نوجوان طبقہ اوربیرونی ملک بسنے والے باشعور لوگ حالات سے عاجز آکر مضطرب ہیں ۔اس اضطراب کو قابو کرنا ممکن نہیں ۔شعور کے اس جن کو بوتل میں بند کرنا آسان نہیں ۔عمران خان نے اس فرسٹریشن کو زبان دی ہے ۔ایران اورپاکستان دونوں کے پالیسی سازوں کونسلِ نو پر بندوق تاننے اور شست باندھنے کی بجائے اس اضطراب کو سمجھنے کی کوشش کر نی چاہئے ۔اسی موقع محل کے لئے کہا گیا ہے
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات