روڈ ٹو سوات!

مالاکنڈ میں عسکریت پسندی پھر سے سر اٹھانے لگی ہے کچھ کا ماننا ہے کہ یہ سرسری واقعات ہیں جب کہ کچھ کے لئے یہ ایک بڑے طوفان کی آمد، حقائق شاید اس کے بیچ میں کہیں موجود ہیں۔سوات کے شہری علاقے گلی باغ میں سکول وین پر فائرنگ کے باعث پورے مالاکنڈ ڈویژن میں خوف وہراس پھیل گیا۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب ڈرائیور محمد حسین معمول کے مطابق بچوں کو گھروں سے اٹھا رہا تھا۔ اس دوران ایک گاڑی میں سوار نامعلوم شخص نے گاڑی کے اندر سے ہاتھ نکالا اور سکول وین پر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ سے ڈرائیور محمدحسین موقعہ پر جاں بحق جب کہ فرنٹ سیٹ پر موجود ایک طالب علم زخمی ہو گیا۔ پولیس نے ذاتی دشمنی قرار دینے کی کوشش کی تاہم لواحقین نے واضح کیا کہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے اور یہ واقعہ سراسر دہشت گردی کا واقعہ ہے۔مقامی لوگوں نے مقتول کی لاش نشاط چوک میں رکھ کر نعرے بازی شروع کی۔ اس کے بعد ضلع بھر سے عوام نے نشاط چوک کا رخ کیا۔ واقعہ کے خلاف مظاہرہ دھرنے میں بدلا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین کے خدشات دہشت گردی کی لہر کی دوبارہ آمد کے حوالہ سے تھے۔ دھرنے میں شرکاء کی تعداد مزید بڑھ گئی تو جماعت اسلامی کے سینیٹرز مشتاق احمد خان اور اے این پی کے رہنمائوں ایمل ولی خان سمیت پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتون نے بھی دھرنے سے خطاب کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے۔
افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد ہی افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوئوں کی پاکستان میں کاروائیوں میں تیزی آ گئی تھی۔ خصوصاً افغانستان سے ملحق ضلع باجوڑ میں ٹارگٹ کلنگ معمول بن گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی باجوڑ اور سوات کے بیچ میں واقعہ ضلع دیر میں عسکریت پسندوں نے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی کو نشانہ بنایا جس میں کئی ہلاکتیں ہوئیں تاہم رکن اسمبلی زخمی ہوئے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندی کا آغاز افغان جہاد کے خاتمہ کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ دیر کے علاقہ میدان سے تعلق رکھنے والے مولانا صوفی محمد نے جماعت اسلامی سے راہیں الگ کرنے کے بعد 1992 میں تحریک نفاذشریعت محمدی کی بنیاد رکھی۔ دیر میں واقع مولانا صوفی محمد کے مدرسہ سے ہی مولانافضل اللہ فارغ ہوئے تو صوفی محمد نے ان کو اپنا داماد بنایا۔ 9/11 کے بعد جب اتحادی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو مولانا صوفی محمد باجوڑ، دیر، سوات اور مالاکنڈ کے دیگر اضلاع سے ہزاروں نوجوانوں کو جہاد کے لئے افغانستان لے گئے۔ خود تو مولانا صوفی محمد اور ان کے داماد ملا فضل اللہ واپس آگئے لیکن مالاکنڈ ڈویژن کے ہزاروں نوجوان آج بھی لاپتہ ہیں۔ یہاں مولاناصوفی محمد اور ملا فضل اللہ کو کچھ عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔ جیل سے رہائی کے بعد ملا فضل اللہ نے مینگورہ شہر سے باہر مام ڈھیری کے نام سے ایک مرکز قائم کیا جہاں ایک مسجد میں وہ امامت بھی کرنے لگے۔ کسی زمانے میں اسی علاقہ میں وہ فضاگٹ کے مقام پر دریا سے گزرنے والے چیرلفٹ کے آپریٹر تھے۔ تاہم مولانا صوفی محمد کی رشتہ داری اور صحبت کے باعث وہ ایک مذہبی رہنما بن گئے۔ 2007 میں جب لال مسجد آپریشن ہوا تو اس نے ہزاروں کے اجتماع سے خطاب کے دوران خودکش حملوں کا اعلان کیا۔ وہ اپنی تبلیغات ایک ایف ایم ریڈیو کے ذریعہ کرتے تھے۔ اس لئے ”ملا ریڈیو”کے نام سے شہرت پائی۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس کے پاس مسلح جوانوں کا جتھہ جمع ہوا۔ اس کے بعد اس نے سوات انتظامیہ کو دھمکانا شروع کردیا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ سوات میں شریعت نافذ کیا جائے۔ ان کو سوات کے مقامی باشندوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس نے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ خواتین کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کردی۔ آہستہ آہستہ سوات کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں آیا۔ اس نے سوات میں چیک پوسٹیں قائم کردیں۔انہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ علاقہ میں اپنے مخالف اٹھنے والی آوازوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعہ خاموش کردیا۔ زیادہ تر نشانہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور ورکرز تھے۔ پھر ایک وقت ایسے آیا کہ مینگورہ شہر سے پولیس مکمل طور پر غائب ہوگئی۔پولیس اہلکاروں، عام شہریوں یہاں تک کہ خواتین تک کو ذبحہ کیا گیا۔ ان کی لاشوں کو شہر کے بالکل بیچ میں رکھ کر ان کی نمائیش کی جاتی۔2009 میں ان کے خلاف آپریشن ہوا تو مولانا صوفی محمد گرفتار جب کہ ملافضل اللہ افغانستان فرار ہوگئے۔ وہاں سے اس نے ملالہ یوسفزئی کو نشانہ بنایا اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے۔جب کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ ان کو ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کے بعد ہی تحریک طالبان پاکستان کے موجودی سربراہ مفتی نور ولی نے تحریک طالبان پاکستان کی سربراہی اختیار کی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت سنبھالنے کے بعد پاکستانی حکومت نے بھی پاکستانی طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنایا۔ مذاکرات کے دوران پاکستانی طالبان کی جانب سے غیر معینہ مدت تک سیزفائر کا اعلان کیا۔ اس دوران بھی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ جب معاہدہ سے قبل ہی سوات میں طالبان کی آمد شروع ہوئی تو مالاکنڈ میں عوام نے مظاہرے شروع کردیئے۔اس طرح کے ردعمل کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ عوام ماضی میں طالبان کے ظلم وستم کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔ طالبان کے نام سے ہی وہ ٹراما میں چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی صورت مالاکنڈ کے عوام نہیں چاہتے کہ پاکستانی طالبان واپس ہوں۔ ایک اور اہم پہلو اس میں”بدل”کا بھی ہے۔ پختون قتل کا بدلہ لینے کی ثقافت رکھتے ہیں۔ جب تک وہ اپنے دشمن کو معاف نہیں کرتے قتل کا بدلہ ان کی نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔
دوسری اہم وجہ پختون تحفظ موومنٹ ہے۔ اس تحریک کے باعث پختونخوا خصوصاً دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں طالبان کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ اس تحریک کا مطالبہ امن رہا ہے اور اس سلسلہ میں وہ امن کے قیام کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر ڈالتے ہیں۔
تیسری اہم وجہ قبائیلی علاقوں کا پختونخوا میں انضمام ہے۔ اس انضمام کے بعد فاٹا میں شدت پسندوں کی حمایت اور سپورٹ میں کافی کمی آئی ہے۔ ان علاقوں میں پولیس اور عدالتی نظام کی آمد کے بعد شدت پسندی کو خطرات محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی قانونا رسائی ممکن ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور خصوصا نوجوانوں میں بہت شعور آیا ہے۔ اس وجہ سے نوجوان شدت پسندی کی جانب جانے سے گریز کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے