وہ جرم بڑا جرم تھا جو میں نے کیا تھا

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ توکے اصول پر اگر عمل کیا جائے تو یقینا ہمیں آنکھیں بند کرکے اپنے ہی آنگن تک محدود رہنا چاہئے لیکن اسے کیا کیا جائے کہ ہمسائے میں آگ لگی ہو تو اس کے شعلوں کی تپش سے بندہ کب تک خود کو محفوظ کر اور لاتعلق رہ سکتا ہے ‘ اس حوالے سے ہمارے اپنے تجربات بھی کچھ اتنے حوصلہ افزاء نہیں بلکہ خدا لگتی کہئے تو بہت تلخ ہیں یعنی ہم نے اپنے مغرب میں لگی آگ میں بلاجواز کود کر اپنا جوحشر کر لیا ہے اور اس کے نتائج آج بھی بھگت رہے ہیں ‘ان کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیا جائے توبھی ایک اور ہمسائے میں ان دنوں بھڑکنے والے شعلوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوششیں کہیں خدانخواستہ ہمیں کسی اور امتحان میں نہ ڈال دیں ۔ ہمارا اشارہ ایک اور ہمسایہ اور دوست ملک ایران کی جانب سے ہے ‘جہاں ان دنوں قدامت پرستوں اور لبرلز کے درمیان ”رسہ کشی” ہو رہی ہے ‘ یعنی حجاب کے مسئلے پر مذہبی حلقوں اور خصوصاً خواتین پر سرکاری پابندیوں کے خلاف خواتین مظاہرے کر رہی ہیں جبکہ ایران سے مخاصمت رکھنے والی مغربی قوتیں اس صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم ہو چکی ہیں ‘ حالانکہ ان کا مسئلہ حجاب یا پردے سے زیادہ ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف بغض وعناد ہے اور اس حوالے سے ایران ایک عرصے سے ان کے نشانے پر ہے ‘ یہ کہانی قدرے پرانی ہے ‘ اور اس کے ڈانڈے مرحوم شہنشاہ آریہ مہر کے دور حکومت میں پیوست ہوتے دکھائی دیتے ہیں ‘ جب ڈاکٹر مصدق ایران کے وزیر اعظم تھے تو ان کی قیادت میں کمیونسٹوں نے شاہ کا تختہ الٹ کر سوشلسٹ حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور وقتی طور پر وہ اس میں کامیاب بھی ہو گئے تھے لیکن مغربی قوتوں خصوصاً امریکی سی آئی اے نے اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر سوشلسٹ انقلاب کو ناکام بنا دیا ‘ اور شہنشاہ آریہ مہر رضا شاہ پہلوی جو ملک سے فرار ہو گئے تھے واپس لا کر دوبارہ ایران پرمسلط کر دیا ‘ اس بات سے قطع نظر کہ ڈاکٹر مصدق اور ان کے اتحادیوں سے وہ کیا بنیادی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ وہ مضبوطی سے قدم نہ جما سکے اور شاہ کی وفادار فوجوں نے بیرونی قوتوں کی مدد سے انقلابی حکومت کا تختہ الٹ کر شہنشاہیت کو ایک بار پھر ملک پر مسلط کر دیا ‘ علامہ اقبال نے اگرچہ بہت عرصہ پہلے تہران کو عالم اسلام کا جینیوا قرار دے کر مسلمانان عالم کو ایک قوت بننے کی پیشگوئی ضرور کی تھی اور اگر ڈاکٹرمصدق کا انقلاب حقیقی معنوں میں کامیاب ہو جاتا تو شاید علامہ صاحب کا یہ خواب بھی پورا ہوجاتا اور آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا ‘ مگر سی آئی اے اور دیگر مغربی ایجنسیوں نے ایسا نہیں ہونے دیا ‘ اور ایک جانب شہنشاہ نے ایران کی خفیہ ایجنسی ساوک کے ذریعے بادشاہت کی مخالفت کرنے والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر انقلابیوں کی کمر توڑ ک رکھ دی تھی اور کمیونسٹ کونوں کھدروں میں چھپنے لگے جبکہ جوا نقلابی ہاتھ لگے ان پر عقبوت خانوں میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جانے لگے کتابوں میں موجود ہے جنہیں پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر علی شریعتی جیسے دانشورووں نے نوجوان نسل کوفکری سطح پر متاثر کرنا شروع کیاتو انہیں بھی جلاوطنی اور ازاں بعد جلاوطنی ہی میں مبینہ طور پر ساوک کے ایجنٹوں کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے’ اور تیسری جانب شہنشاہ کے ظلم سے تنگ آئے ہوئے عام آدمی کو مذہبی رہنمائوں نے امام خمینی کی قیادت میں زبان دے کر اندر ہی اندر احتجاج کو منظم کیا ‘ یہ صورتحال شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے لئے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی مگر مذہبی حلقے رز بروز مضبوط ہوتے جارہے تھے ‘ مجبور ہو کر شہنشاہ نے اگرچہ مذہبی حلقوں کے خلاف اس طرح کے اقدام توکم کم ہی اٹھائے جیسے کہ کمیونسٹوں اور ڈاکٹر علی شریعتی کے فکری مقلدین کے ساتھ روا رکھے گئے مگر امام خمینی کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرنے کے بعد انہیں جلا وطن کر دیا ‘ گویا بقول شاعر
وہ جرم بڑا جرم تھا جومیں نے کیا تھا
اک روز ترے شہر میں سچ بول دیا تھا
جلاوطنی کا امام خمینی اور ان کے حامیوں کو بہت فائدہ ہوا ‘ یہ وہ دور تھا جب آج کی طرح سوشل میڈیا اتنی ترقی تو نہیں کر چکا تھاالبتہ اپنے وقت کے لحاظ سے پھربھی کچھ نہ کچھ فائدہ اس سے آڈیو کیسٹوں کی صورت میں ضرور اٹھایا جاسکتا تھا اور فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جلا وطنی کی زندگی گزارتے ہوئے امام خمینی نے شاہ کے خلاف اپنی تقاریر کے ذریعے اندرون ملک ایک آگ بھڑکا کر نوجوانوں میں ایک ولولہ پیدا کیا ‘ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں امام خمینی کی تقایر کے آڈیو کیسٹ خفیہ طور پر ایران کے کونے کونے میں پہنچنا شروع ہوگئیں اورپھر دنیا نے اس انقلاب کو طلوع ہوتے دیکھا جس نے ایک جانب امام خمینی کے طیارے کو تہران کی فضائوں میں آکر اترتے دیکھا تو دوسری جانب شہنشاہ آریہ مہر کے اقتدار کوغروب ہوتے یوں دیکھا کہ وہ اپنا ملک دوسری بار(ہمیشہ ہمیشہ کے لئے) چھوڑ رہا تھا ‘ انقلاب مکمل ہوچکا تھا اور ایران کے عوام نے سکھ کا سانس لیا جبکہ مغربی قوتوں نے اس انقلاب کو اپنی پالیسیوں کے لئے شکست سے تعبیر کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے خلاف نئے سرے سے کوششیں شروع کر دیں ‘ اس دوران کچھ اور اہم واقعات بھی رونما ہوئے تاہم کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے ‘ ا لبتہ آج کل ایک بار پھرایران کی فضائیں ایک اور عوامی احتجاج کا سامنا کر رہی ہیں اور ایرانی مقتدروں کی پالیسیوں کے خلاف عوام ایک بار پھر(ممکنہ طور پر مغربی قوتوں کی شہ پر )سراپا احتجاج ہیں ‘ جس کی آنچ ہماری سرحدوں پر بھی محسوس کی جارہی ہے اور خوف یہ ہے کہ کہیں کل یہ نہ کہنا پڑ جائے کہ
نہ ایسے بھی خدایا زُہد و تقویٰ کا بھرم نکلے
فقیہان حرم کی آستینوں سے صنم نکلے
اس لئے حد درجہ احتیاط لازم ہے ‘ وما علینا الالبلاغ

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات