معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

ان اطلاعات کے باوجود کہ طالبان کی سوات سے واپسی شروع ہوگئی ہے سوات میں دہشت گردی کے خلاف اورقیام امن کے لئے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔جس میں عوام بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیںجو لوگ دہشت گردوں کو سوات لائے ہیں۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں م قررین نے کہا کہ پہلے وہ ان کا نام نہیں لینا چاہتے تھے’ لیکن اب مجبور ہوکر ہم وہ نام لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں آخری دہشت گرد کے جانے تک اس احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سوات کے علاقہ بریکوٹ میں بھی امن کے لئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ ادھر شانگلہ میں امن کے لئے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ‘سوات میں حالیہ واقعات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا مرجائیں گے مگر دوبارہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔ حالات جیسے بھی ہوں عوام اور لیڈرشپ سب یک زبان ہیں کہ امن کا دشمن سب کا مشترکہ دشمن ہے، تخریب کار عناصر کا ساتھ دینے والا بھی سب کا مشترکہ دشمن تصور ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ سوات میں دہشت گردی نے سب کو یکساں متاثر کیا اور قوم نے جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے اس مشکل وقت کا مقابلہ کیا ہے، اب امن و امان میں بگاڑ ڈالنے کی جو سازش دوبارہ کی گئی اس کو سب ملکر ناکام بنائیں گے، امن و ترقی ہمارا مشن ہے اور اس مشن میں ہم کامیاب ہوں گے۔دریں اثناء وزیراعلیٰ محمود خان نے کہاہے کہ سوات میں دہشتگردی نے سب کو یکساں متاثر کیا ہے اور سوات مزیدبدامنی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ امن قائم کئے بغیر نا سیاست ہو سکتی ہے اور نا ہی قوم ترقی کرسکتی ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ عوام کی جان و مال اور ان کے حقوق کا تحفظ ہم پر فرض ہے اور عوام ہمارا سرمایہ اور زمین ہماری ماں جیسی ہے، جس سے محبت ہمارے خون میں شامل ہے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ ہم اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور قوم و ملک کو نقصان پہنچانے والا ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے ۔ اس ساری صورتحال میں اس امر کی سمجھ نہیں آتی کہ مظاہرے کس کے خلاف ہو رہے ہیں مرکزی اور صوبائی حکومت کے حامی یکساں طور پر اس سلسلے میں مشوش ہیں بہرحال امن وامان کے حوالے سے صوبائی حکومت کی ذمہ داریاں پہلے ہیں اب اگر وزراء مظاہرے کریں اور وزیر اعلیٰ بیانات دیں تو اقدامات کی ذمہ داری کون پوری کرے گا سوات کا امن کوئی سیاسی مسئلہ بھی نہیں بلکہ عوامی مسئلہ ہے اور عوام و خواص بلا امتیاز امن کے لئے مظاہروں میں شرکت بھی کر رہے ہیں لیکن اس امر کی سمجھ نہیں آتی کہ ان کا مخاطب کون ہے مستزاد اب جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق طالبان واپس
جانے لگے ہیں علاوہ ازیں اکا دکا واقعات کے علاوہ کوئی قابل ذکر سنگین واقعہ بھی رونما نہیں ہوا اور نہ ہی طالبان کی موجودگی کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات سامنے آئی ایسے میں معمہ یہ ہے کہ پھر اس قدر بے چینی کیوں ہے اور متفقہ و مشترکہ طور پر خدشات کا بار بار اظہار کیوں ہو رہا ہے ۔بہرحال سوات میں پائیدار امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف تسلسل سے مظاہرے ہو ر ہے ہیں اور عوام اپنے جذبات کا سڑکوں پر آکر ا ظہار کر رہے ہیںایک مظاہرے میں تو مقررین نے مطالبہ کیا کہ مٹہ کالج اور شیر پلم سکول کو خالی کیا جائے، تاکہ وہاں نصابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں اور سکیورٹی فورسز سوات سے نکل جائیں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک جانب امن کو درپیش خطرات کی دہائی دی جارہی ہے اور دوسری جانب سکیورٹی فورسز کے انخلاء کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس منطق کوسمجھنا مشکل ہے بہتر بات یہ ہوگی کہ اس کی وضاحت کی جائے اور واضح طور پر بتایا جائے کہ عوام کس سے شاکی ہیں اور کیوں ہیں وجوہات کیا ہیں اور وہ کس قسم کے اقدامات کے خواہاں ہیں امر واقع یہ ہے کہ سوات میں طالبان کے ایک آدھ مرتبہ سامنے آنے کے بعد احتجاج کا جوسلسلہ شروع ہوا تھا حالات میں بظاہر بہتری آنے کے باجود اس سلسلے کا جاری رہنااور عمائدین و سیاسی زعماء کی جانب سے تشویش کا اظہارعوامی سطح پر عدم اعتماد اور عدم اطمینان کوظاہر کرتا ہے جس سے پس پردہ حالات اور بظاہر کے حالات میں فرق ہونے کا بھی تاثر ملتا ہے جو تشویش کاباعث امر ہے بہرحال عوام کا امن وامان بارے تشویش کا اظہار بے وجہ نہیں ہو سکتا ان کے تحفظات پر توجہ کی ضرورت ہے ۔کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے وزیرستان میں مانیٹرنگ ٹیموں کو وارننگ اور پولیو ٹیموں کو دھمکانے کے لئے پمفلٹ کااجراء کھلم کھلا صورتحال کو خراب کرنے کا عندیہ ہے علاوہ ازیں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات معمول بن چکے ہیں جبکہ بھتہ خوری کے مطالبات بھی ہونے لگے ہیں یہ اس طرح کی صورتحال ہم ایک مرتبہ پہلے بھگت چکے ہیں بعض عناصرکی جانب سے کچھ بین الاقوامی کشمکش کے تحت بھی بعض علاقوں کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اس کی حقیقت سے قطع نظر واضح صورتحال یہ ہے کہ فائر بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعدسے شدت پسند عناصر حکومتی عملداری کو للکارنے کی سعی میں نظرآتے ہیں حال ہی میں سوات کے سیاحتی مقام پر مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی سامنے آئیں، جس سے خطے میں ایک دہائی سے زیادہ امن اور صورتحال معمول پر آنے کے بعد پرتشدد واقعات کا نیا سلسلہ شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیاتھا۔حکومت نے خاموشی سے عسکریت پسندوں کے تعاقب میں فورسز کو بھیجا لیکن ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ پہلے ہی اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر افغانستان واپس چلے گئے تھے اس قضئے کا بالاخر اختتامی باب لکھنا باقی ہے کچھ مشکل صورتحال درپیش ضرور ہوگی۔اس وقت ایک مرتبہ پھر جو حالات نظر آرہے ہیں یہ اختتامی باب ہی کا حصہ بھی ہوسکتے ہیں تاکہ معاملے کو عملی طور پر لپیٹے جانے کا یقین آجائے زیادہ پریشان کن امر عدم تحفظ کا بڑھتا احساس اور ممکنہ طور پر حالات کی خرابی ہیں اس ضمن میں صوبے کے عوام ماضی کے تجربات اور تکلیف دہ یادداشت کے باعث سخت پریشانی کا شکار ہیں جن کوتحفظ کا عملی احساس دلانے کا تقاضا ہوگا کہ ممکنہ طور پر شدت پسند عناصر کی آمد کے خطرات کا پہلے سے توڑ اور بندوبست ہونا چاہئے تاکہ عوام میں عدم تحفظ کا احساس دور ہو اور امن وامان کی صورتحال پوری طرح قابو میں رہے ۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت