پنڈی میں ” آزادی ” کا نعرہ

معروف صوفی بذرگ پیر مہرعلی شاہ کے نام سے منسوب راولپنڈی کی بارانی زرعی یونیورسٹی شمالی پاکستان کی ایک نمایاں درس گاہ ہے جہاں اکثر یت ان غیر سیاسی طلبہ کی ہوتی ہے جو ملازمت اور ایک مخصوص شعبے میں قدم رکھنے کی سوچ کے تحت داخل ہوتی ہے۔یہ زراعت اور اس سے وابستہ شعبوں میں مہارت اور اعلیٰ تعلیم کے خواہش مندوں کی درس گاہ ہے ۔گزشتہ روز اس درس گاہ میں پرجوش طلبہ نے ”ہم چھین کے لیں گے آزادی ” کا نعرہ بلند کیا ۔طلبہ کے جذبات ان کی آوازوں کا جوش او ر ان کے چہروں کے تاثرات یہ بتارہے تھے کہ وہ واقعی سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی آزادی کہیں کھو کر رہ گئی ہے او ر وہ اس نیلم پری کو بازیاب کرانے کا عزم کر رہے تھے ۔پاکستان میں حالیہ احتجاجی لہر میں یہ سوال اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کا دائرہ بہت سکڑ کر رہ گیا ہے ۔پاکستان اپنے مستقبل کے لئے بڑے فیصلوں کی قدرت نہیں رکھتا ۔پاکستان کا کوئی حکمران اگرآزادروش پر چلنے کاعزم ہی رکھتا ہے تو اس کا پائوں کسی پراسرار باردوی سرنگ سے جا ٹکراتا ہے اور اس کا وجود بھک سے ہوائوں میں اُڑ جاتا ہے ۔اس کے بعد مدت دراز تک کوئی ملک کے اقتدار اعلیٰ کی سپیس بڑھانے کی کوشش نہیں کرتا ۔لیاقت علی خان او ر ذوالفقار علی بھٹو کے انجام مختلف ہوئے مگر دونوں آزاد روی کی پالیسی کا شکار ہوئے ۔ امریکہ نے سوویت یونین پر نظر رکھنے کے نام پر پاکستان سے فوجی اڈوں کی فرمائش کی تو لیاقت علی خان نے انکار کیا ۔اسی دوران ایک سنسناتی ہوئی گولی ان کا سینہ چیر کر گزر گئی اور اس کے بعد پاکستان عدم استحکام کاشکار ہوا اور حسین شہید سہرروردی وزیر اعظم بنے تو انہوںنے امریکہ کو پشاور میں اڈے فراہم کر دئیے ۔پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے امریکی فوجی اتحادوں کا حصہ بنتا چلا گیا۔جنرل ضیا ء الحق بھی جب تک افغان جہاد کے باہمی کے رشتے میں منسلک رہے دنیا میں ان کا ڈنکا بجتا رہا جونہی وہ اپنی آزادانہ اُڑان پر اصرار کرنے لگے تو وہ بھی لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی دنیا میں ایک مختلف انداز سے پہنچ گئے ۔ ضیاء الحق دُھن کے پکے نکلے اگلے جہان کے سفر میں ایک امریکی سفیر اور ایک فوجی افسر کو بھی اپنے ساتھ لیتے گئے ۔حالیہ مہینوں میں پاکستان ایک خوفناک بحران کا شکار ہے ۔ایک حکومت بظاہر آئینی طریقہ کار کے تحت رخصت ہوئی مگر آئینی طریقہ ٔ کار کے آخری مرحلے تک پہنچنے سے پہلے فاؤل پلے کا ایک پورا دور گزر گیا۔اس دور کو عمران خان نے ایک ”آزادی وغلامی ” کا فسانہ ٔ عجائب بنا دیا ۔آزادی کا نعرہ اس قدر دلنشیں ہے اور غلامی کا احساس اس قدر کریہہ ہے کہ لوگ اس کے لئے جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔امریکہ نے پاکستان سے جو مطالبات کئے ان میں روس کی طرف مراجعت کا سفر ختم کرنا اور چین کے ساتھ مستقبل کے منصوبوں کا گراف اس قدر گرانا کہ وہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر کے لئے خطرہ نہ رہیں ۔اس کہانی کو عمران خان نے پاکستان کے پیروجواں کو سنا کر اور اس پر ”ہم کوئی غلام تو نہیں” جیسے ترانے بجا کر ایک عام نوجوان کواحساس دلا یاکہ ان کے ملک کا اقتدار اعلیٰ برائے نام ہے اور انہیں حقیقی آزادی کی جنگ ابھی لڑنا ہے۔امریکہ بہت معصوم اور بھولا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایک ایناکونڈا کی طرح اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے ۔وہ پاکستانی حکمرانوں کا ڈر ادھمکا کر اپنی پسند کے فیصلے کراتا ہے اور اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کا حلیہ بگڑتا ہے تو اسے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔امریکہ نے حال ہی میں پاکستان کو افغانستان پر نظر رکھنے کے لئے اڈوں اور ڈرون حملوں کی اجازت پر آمادہ کیا تو ردعمل میں سوات اور وزیرستان کے علاقوں میں دہشت گردوں کی واپسی تھا جہاں امن کی بھارت قیمت عوام اور سیکورٹی فورسز نے ادا کی تھی ۔قتل وغارت سے بے گھری تک ہر عذاب اور عتاب ان لوگوں نے برداشت کیا تھا ۔یہ تو ابھی ابتدا تھی آنے والے حالات کی تصویر خونیں اور دل دہلا دینے والی تھی ۔اسی لئے سوات کے عوام نے اجتماعی ردعمل ظاہر کیا۔جنرل مشرف کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا ۔پاکستان کو دبائو میں لا کر فیصلے کرائے گئے نتیجے کے طور پر ٹائم میگزین کی کور سٹوری میں پاکستان کا دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ۔آج پاکستان آزاد فیصلوں کا حق چاہتا ہے ۔اپنے ملک کے اقتدار اعلیٰ کا دائرہ وسیع کرناچاہتا ہے ۔یہ مطالبہ کوئی جرم نہیں ہر شہری کا حق ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار