اوپیک کا فیصلہ اور پاکستان کی انرجی سکیورٹی

تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کے ارکان نے تیل کی پیداوار میں یومیہ20 لاکھ بیرل کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھنا شروع ہوگئی ہیں، اوپیک کے رکن ممالک کا یہ اعلان حیران کن طور پر ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکہ کی طرف سے ان پر ایسا کوئی اقدام نہ کرنے کا دباؤ تھا، بائیڈن انتظامیہ نے تیل کے پیداواری ممالک کو آگاہ کیا تھا کہ ان کا یہ اقدام عالمی سطح پر پہلے سے جاری مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا ، تاہم سعودی عرب سمیت بعض اوپیک ممالک کی طرف یہ مؤقف اپنایا گیا کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا اقدام مارکیٹ کی توقعات کے مطابق ہے اور مارکیٹ کے بیشتر تجزیہ کاروں نے اس کی پیشن گوئی بھی کی تھی۔ درحقیقت، امریکی ٹی وی ”سی این این” نے دعویٰ کیا تھا کہ اوپیک کے ارکان کساد بازاری کے خدشے کے پیش نظر اکتوبر میں قیمتیں بڑھا سکتے ہیں، چنانچہ اب اس اقدام کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے، اوپیک ممالک کے5 اکتوبر کے فیصلے کے بعد کے ہفتے میں برینٹ کروڈ کی قیمت میں2.3 فیصد اضافہ دیکھا گیا،آیا یہ خام تیل کی قیمت میںاضافے کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ عالمی کساد بازاری کی صورت حال کتنی تیزی سے پیدا ہوتی ہے۔
جیسا کہ مغرب میں سردیوں کی باضابطہ آمد سے پہلے ہی موسمی شدت کے باعث جلانے کے لئے استعمال ہونے والے تیل کی بڑھتی ہوئی طلب ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن چکی ہے، جن دو چیزوں کو دیکھنا ہوگا ان میں پاکستان جیسے (ایندھن کے خالص درآمد کنندگان) ملکوں سمیت صنعتی اور کمرشل صارفین کے لئے ایندھن کی دستیابی اور ایندھن کے صنعتی اور کمرشل صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافہ شامل ہے، خوردہ قیمتوں میں اضافہ چونکہ معیشت میں مجموعی طلب میں کمی لاتا ہے جس سے جاری سال میں ہماری مجموعی ملکی پیداوار میں کمی ہوسکتی ہے، جو سیلاب کے بعد پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔
یقیناً معاشی ترقی کی مساوات میں، یہ پاکستان کے بڑے پیمانے پر پیداواری شعبے(مینوفیکچرنگ) اور تجارتی سامان کی برآمدات کے لئے اچھی خبر نہیں ہو گی، جولائی میں بڑے پیمانے پرمینوفیکچرنگ میں پہلے ہی گزشتہ ماہ کے مقابلے16.5 فیصد کمی دیکھی گئی ہے جب کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں گزشتہ سال کے جولائی کے مقابلے میں1.4 فیصد تنزلی آئی ہے، جس میں تقریباً 16 فیصد حصہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کا ہے جن کے لئے پہلے ہی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور بہت سے ادارے تو عارضی بندش کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
اگرچہ اقتصادی ترقی کی کم شرح کے ملک میں رسمی اور غیر رسمی روزگار دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، مرکزی بینک نے اس سال کے لیے کم شرح کے امکانات کی حمایت کی ہے کیونکہ اس سے افراط زر پر قابو پانے میں مدد ملے گی جب کہ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کے لیے تقریباً 20 فیصد افراط زر کی پیش گوئی کی ہے، مانیٹری پالیسی اوپیک کے فیصلے کے اثرات کو اجاگر نہیںکیا جا سکا جن کی بدولت افراط زر کی شرح اسٹیٹ بینک کے پیش کردہ اعداد و شمار یعنی 20 فیصد سے زائد ہو سکتی ہے، جیسا کہ حکومت نے توسیعی فنڈ سہولت کی بقیہ مدت میں شرائط میں نرمی کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ رابطوں کا عندیہ دیا ہے، ایندھن کی بڑھتی ہوئی بیرونی قیمتوں یا اوپیک کے فیصلے کے بعد تیل کے خالص درآمدی ممالک کے لیے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال کا بھی فنانس ڈویژن کو بغور جائزہ لینا چاہیے اور آئی ایم ایف سمیت ترقیاتی شراکت داروں کے سامنے اپنا مضبوط مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔
اگر اگلی چند سہ ماہیوں کے دوران ایندھن کی بڑھتی ہوئی درآمدی قیمتوں کو صارفین تک منتقل کیا جاتا ہے تو اس سے مسلم لیگ (ن)کی زیر قیادت اتحادی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں کمی ہو سکتی ہے، چنانچہ مسلم لیگ (ن)کو2023 ء کے انتخابات میں اپنے ووٹ بینک کو بچانے کی خاطر بغیر فنڈزکے سبسڈیز چلانے کی خواہش سے لڑنا پڑے گا۔ فیملی بجٹ کو اضافی بحران سے بچانے کے لئے صوبائی بجٹ میں گنجائش تو موجود ہے لیکن ایک ایسے ماحول میں جہاں پنجاب اور خیبر پختونخوا ،وفاق، سندھ اور دیگر وفاقی اکائیوں کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند نہیں ہیں، مہنگائی کے خلاف مربوط ردعمل خارج از امکان ہے۔
طویل مدتی بنیادوں پر پاکستان کے لئے انرجی مکس کو دوبارہ زیر غور لانے کا سوا کوئی آپشن نہیں ہے، چونکہ توانائی کے شعبے کی درآمدات 24 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، سمجھداری اسی میں ہے کہ حکومت تھر انرجی لمیٹڈ کے330 میگا واٹ پاور پلانٹ کے افتتاح کے ساتھ آگے بڑھے، کوئلے پر مبنی توانائی کے حصول میں ماحولیاتی اور آب و ہوا کے حوالے سے خدشات کو بھی مناسب طور پر ملحوظ خاطر رکھا جائے، اس کے علاوہ توانائی کے نظام کی کارکردگی اور توانائی کی ترسیل اور تقسیم میں تکنیکی نقصانات پر مؤثر انداز میں قابو پانے سے قیمتی زرمبادلہ کو بچایا سکتا ہے۔
(بشکریہ ، عرب نیوز، ترجمہ : راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا