یہ طرز حکمرانی؟

خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تحریک انصاف کے احتجاج اور اس کی مبینہ طور پرصوبائی حکومتوں کی جانب سے سہولت کاری کے پیش نظر وزیر داخلہ گورنر راج لگانے کی دھمکی دے چکے ہیں جس سے وفاق اور دو صوبوں کے تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے تعلقات کے اس بگاڑ کے اثرات بظاہر تو احتجاج اور حقیقی آزادی مارچ ہی تک نظرآتے ہیں مگر بباطن ایسا نہیں بلکہ صدرمملکت کی صوبائی حکومتوں سے ہمدردی اور گورنر راج لگانے کے امکانات کے محدود ہونے کے باوجود صوبے اور وفاق کے تعلقات میں بگاڑ کے اثرات نہایت مشکل حالات کا باعث بن سکتے ہیں یہی کیا کم ہے کہ اس احتجاج سے پورے ملک کا نظام درہم برہم اور آمدورفت پر اثرات سے عوام مختلف طریقوں سے متاثر ہو رہے ہیں اور جو جوں یہ سلسلہ طول پکڑے گا اس میں شدت آتی جائے گی خیبر پختونخوا حکومت کو گزشتہ ماہ وفاق ہی نے فنڈز جاری کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے قابل بنایا تھا اب اگر دیگر معاملات کوایک طرف رکھ کر صرف اسی نکتے ہی کو لیا جائے تو ماہ رواں کے آخر تک یہ سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں صوبے میں تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر مالی معاملات میں بگاڑ کا قوی خدشہ ہے صوبائی حکومت ترقیاتی فنڈزاور دیگر وسائل کو جھونک کر بھی اس صورتحال سے کماحقہ نکل نہیں پائے گی اس کے باوجود بجائے اس کے کہ حکومتی سطح پر تعلقات میں زیادہ سرد مہری اختیار نہ کی جائے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام کسی صورت گورنر راج قبول نہیں کریں گے۔ وفاقی حکومت صوبوں کو آئین و قانون کا درس دینے کے بجائے خود آئین و قانون پر عمل کرے۔ امپورٹڈ حکومت عوام اور کارکنوں کے احتجاج سے گھبرا گئی ہے۔جس طرح کھری کھری سنانے اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کا وتیرہ اختیار کیا گیا ہے یہ بھی قانونی طریقہ نہیں ہر دو حکومتیں اپنی اپنی کریں تو عوام نے پس جانا ہے اور ملکی معاملات متاثر ہوتے ہیںماہرین کے مطابق اس وقت جو صورت حال ہے وہ آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کے تحت ایمرجنسی یا گورنر راج کی متقاضی نہیں ہے، تاہم اگر یہ زیادہ دنوں تک جاری رہے تو پھر اس بارے میں ضرور غور کیا جائے گا کیونکہ ملک اس طرح کی صورت حال کا زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہوسکتا۔ماہرین کے مطابق صدر صوبوں میں ایمرجنسی کا نفاذ روک تو نہیں سکتے، لیکن کم از کم اس میں ایک ماہ تک تاخیر کا باعث ضرور بن سکتے ہیں۔جانبین کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی کشیدگی کو ایک طرف رکھ کر اسے سیاسی جماعتوں کے درمیان چپقلش ہی بنائے رکھیں اور حکومتی و ملکی معاملات اور وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے اور دبائو میں لانے سے گریز کریں۔
تیراہ ‘عوام کے جائز مسائل
تیراہ میں کھلی کچہری میں عوام نے مسائل کے انبار لگاتے ہوئے کہا کہ 2014ء سے دہشتگردی سے متاثرہ مکانات کا سروے اب تک مکمل نہیں ہو سکا اور جن لوگوں کے سروے ہوچکے ہیں انہیں معاوضے کے چیک نہیں ملے، باغ میں موجود ہسپتال اور سکولوں کو ابھی تک عملہ فراہم نہیں کیا گیا، زرعی زمینوں کو قابل کاشت بنانے کیلئے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے، حادثات کی صورت میں امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کیلئے ریسکیو ہیڈکوارٹر قائم کیا جائے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، حکومت کے زیر اثر زمینوں کے مالکان کو معاوضہ ادا کیا جائے ۔ دور درازعلاقے کے دہشت گردی سے متاثرہ عوام نے حکومت سے جو مطالبات کئے ہیں اس کی نوبت اس لئے نہیں آنی چاہئے تھی کہ یہ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہیں حکام کی جانب سے کھلی کچہری میں عوام نے کوئی اضافی مراعات اور کوئی ناجائزمطالبات نہیں کئے جو حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بنتیں تمام مطالبات آئین وقانون کے مطابق اور حکومتی ذمہ داریوں کے دائرہ کار کے اندر ہیں جن پر عملدرآمد میں مزید تاخیر اہالیان علاقہ سے ناانصافی ہو گی۔
ایک اور مہم
پشاور میں گداگروں کے خلاف بھی نشے سے پاک پشاور مہم کی طرز پر آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ احسن ہے ۔تحویل میں لئے گئے گداگروں کے لئے خصوصی انتظامات بھی قابل عمل اور موزوں ہیں جس کے بعد اس منصوبے پر حقیقی عملدرآمد ہی باقی رہ جاتی ہے توقع کی جاسکتی ہے کہ نشے سے پاک پشاور جس کی پوری طرح کامیابی کا دعویٰ تو درست نہ ہوگا البتہ اس ضمن میںخاصا کام ضرور ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ پیشہ ور گداگروں کے خلاف مہم کو موثر انداز میں چلایا جائے گا اور اس کی روک تھام کے لئے تمام تر مساعی ہوں گی اس کی مکمل روک تھام تو شاید ممکن نہ ہو مگر یہ ایک قابل ذکر قدم ضرور ہوگا جس سے بہتری متوقع ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران گیس معاہدہ