نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

سوشل میڈیا جہاں رطب و یابس کا باعث بن رہا ہے کوے کو سفید کرنے کے لئے اس کا استعمال عام ہو چکا ہے ‘ وہاں اس کے فوائد بھی بے شمار ہیں ‘ اور اس کے مختلف ایپس ایسی معلومات سے بھرے پڑے ہیں جن سے عقل و دانش کے موتی چننا اور ان کو انسانی فائدے کے لئے استعمال کرنابھی آسان ہو جاتا ہے’ دراصل یہ ایک ایسی فکری دنیا کی نشاندہی کرتی ہے جس سے ہر شخص اپنی اپنی پسند اور صوابدید کے مطابق استفادہ کر سکتا ہے ‘ گزشتہ دنوں دو ایسی شخصیتوں کے بارے میں الگ الگ پوسٹیں سامنے آئیں ‘جن کا تعلق چونکہ برصغیرکی تاریخ سے ہے اور انہیں گزرے ہوئے اتنی زیادہ مدت بھی نہیں ہوئی ‘ بلکہ وہ اپنے کردار و عمل سے اپنے معاشرے اور اپنے ملک کے لئے تو خیر اہمیت کے حامل ضرور
ہیں تاہم باوجود یکہ برصغیر کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے ہمارے اور ان کے نظریات میں بعد المشرقین تھا ‘ ہے اور رہے گا ‘ لیکن عقل و فہم کا تقاضا یہی ہے کہ اچھی بات اور اچھا عمل جہاں بھی نظر آئے ‘ اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہر زمانے ‘ ہر دور اور ہر معاشرے میں رہی ہے اس لئے دشمن کی اچھی بات سے بھی استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ کیونکہ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تو فرمایا ہے کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے’ اور جب آپۖ یہ بات فرما رہے تھے تو تب چین میں خدا جانے کونسا مذہب تھا ‘ پھر یہ بھی دیکھئے کہ کفار مکہ کے ساتھ غزوہ کے نتیجے میں جب قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے اور ان کی رہائی کے لئے تاوان جنگ کے عوض قیدیوں کو رہا کیا جارہا تھا توایسے قیدی جو مطلوبہ رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے تو ان کو اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ ایک خاص مدت تک مسلمانوں اوران کے بچوں کوپڑھائیں گے گویا علم کہیں سے بھی ملے حاصل کرنے میں کوئی تردد نہ کی جائے ‘ اسی طرح آج ہم دنیا کے مشہور فلسفیوں ‘ دانشوروں کی داستانیں اور ان کے فرمودات سے استفادہ کرتے ہیں جو صدیوں بلکہ ہزاروں سال پہلے مغربی معاشروں کا حصہ تھے ‘ تو اپنے قریب اگر ہمیں ایسے کردار نظرآتے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے ‘ اور وہ جوعلامہ اقبال نے اپنی ”مٹی کی زرخیزی” کی بات کی تھی تو وہ صرف آرگینگ مٹی کا ذکر تھوڑی تھا ‘ علامہ کا مقصد اور مطلب تو اس فکری توانائی سے تھا جو وہ اپنے وطن کی شخصیات میں دیکھ رہا تھا ‘ انہوں نے کہا تھا
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
بات ہو رہی تھی برصغیر کے دو ایسے کرداروں کے حوالے سے جن کے کردار و عمل سے ہم (اپنے آج کے سیاسی تناظر میں) سبق سیکھ کر آگے بڑھ سکتے ہیں ‘ ان میں ایک تو تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جنہوں نے تقسیم ہند کی شدید مخالفت میں ایک لمحہ ضائع نہیں کی ‘ پاکستان کے قیام کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور قیام پاکستان کے بعد بھی نہ صرف اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پاکستان دشمنی میں گزرا بلکہ اس کے خاندان نے پاکستان دشمنی کی لیگیسی کو حرزجاں بنا رکھا تھا ‘ یعنی ان کی بیٹی اندرا گاندھی کی پاکستان سے نفرت بھی عیاں ہے ‘ تاہم نہرو کا شمار بھارت کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو محاورے کے مطابق نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا اور بڑا ہوا ‘ اعلیٰ تعلیم کے لئے اس کے باپ موتی لال نہرو نے روپیہ پانی کی طرح بہایا ‘ انگلستان سے بیرسٹری کی اعلیٰ ڈگری لے کر آیا تو باپ ہی نے اسے الہ آباد میں اپنے اثرورسوخ سے اچھے کلائنٹس دلوا کر اس کی وکالت کو چمکایا ‘ مگر نہرو چونکہ کمیونسٹ سوچ کے مالک تھے وہ سیاست میں دلچسپی لے کر آگے بڑھنا چاہتے تھے ‘ اس کے والد نے بہت سمجھایا کہ سیاست چھوڑو ‘ کالت میں نام کمائو ‘ دولت سمیٹو اور عیش وعشرت کی زندگی گزارو مگر نہرو نے ان کی بات نہیں مانی تو ایک روز پنڈت موتی لال نہرو نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کے کمرے سے سارے قیمتی سوٹ ‘ جوتے اور دیگر اشیاء نکال کردوستوں کے بچوں میں تقسیم کیں ‘ اور ان کی جگہ کھدر کے تین جوڑے’ ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی ‘ سارا قیمتی فرنیچر نکال کراس کی جگہ کھردری اورموٹی سوتی چادر بچھانے کا حکم دیا ‘ خانساماں کو حکم دیا کہ کل سے صاحبزادے کو جیل کا کھانا یعنی دال روٹی دو ‘ بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا ‘ پنڈت جواہر لعل نہرو شام کو واپس آیا اور اپنے کمرے کی یہ کایا کلپ دیکھی تو والد سے پوچھا یہ سب کیا ہے ؟ والد نے کہا برخوردار تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل ‘ بھوک اور خواری کے سوا کچھ بھی نہیںمیں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈالو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیں ‘ دوسرے یہ کہ سیاست میں عام آدمی کی بات ہوتی ہے ‘ اگر تم عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو ‘ توپھرتمہیں خود کوبھی اسی رنگ میں ڈھالنا پڑے گا جو عام غریب لوگوں کی زندگی کا حصہ ہے ‘ جواہر لعل نہرو نے والد کی اس بات کو پلو سے باندھ کر سادگی اختیار کی اور اس کے بعد اس نے کبھی شاہانہ طرز زندگی اختیار نہ کیا ‘ اور عام آدمی نے بھی نہرو کو جو عزت دی وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ اس حوالے سے جب ہم اپنے سیاسی قائدین پر نظر دواڑتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے اور بقول شاعر
خود اپنے خالی گھر میں صدا دی کہ ”کوئی ہے؟”
خود ہی کہا کہ کون ہو ‘ خود ہی کہا کہ ”میں”
ویسے ہمارا ماضی اتنا بھی خدانخواستہ مایوس کن نہیں کہ جس پر ہمیں کف افسوس ملنا پڑے بابائے قوم کی عظمت و توقیر تو مسلمہ ہے ‘ ان کے ساتھیوں میں بھی ایسے باکردار لوگوں کی کمی نہیں تھی جن پر ہماری تاریخ ہمیشہ فخر کرے گی ‘ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے مقابلے میں جب ہم اپنے ملک کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمارا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے ‘ جواہر لعل نہرو کی طرح نوابزادہ لیاقت علی خان بھی بہت بڑے جاگیر دار خاندان کے چشم و چراغ تھے ‘ جنہوں نے تحریک آزادی میں بابائے قوم کے دست راست کا کردار نبھاتے ہوئے ہر قسم کی قربانی دی یہاں تک کہ جب پاکستان بن گیا اور انہوں نے بھارت میںاپنی جاگیر چھوڑ کر نئے وطن میں ہجرت کی تو جہاں ہزار ہا مہاجرین نے بھارت میں چھوڑی ہوئی جائیدادوں کے بدلے یہاں جاگیریں’ جائیدادیں حاصل کیں نوابزادہ لیاقت علی خان نے ایک پیسے کا فائدہ نہیں ا ٹھایا ‘ یہاں تک کہ جب انہیں راولپنڈی میں شہید کیاگیا تو بعض روایات کے مطابق ان کی شیروانی کے نیچے ان کی پہنی ہوئی بنیان بھی پھٹی ہوئی تھی۔ کیا ہم ایسے رہنمائوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سادگی اختیار نہیں کرسکتے؟
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لئے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لئے

مزید پڑھیں:  حساب کتاب