آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے

پہاڑی علاقوں میں لوگ ایندھن کے لئے اپنے ارد گرد اللہ کی دی ہوئی نعمت سے استفادہ کرتے ہیں یعنی خصوصاً سردی کے دنوں میں گھروں کوگرم رکھنے کے لئے سوختنی لکڑی کا استعمال عام ہے’ اور جو لوگ جنگلات کے قریب رہتے ہیں وہ ٹولیوں میں جا کردرختوں کوکاٹ کر لکڑیوں کے گھٹے بناکر لاتے ہیں ‘ یہ بات ہمیں اس وقت پتہ چلی جب ہم اپنی ملازمت کے سلسلے میں ریڈیو پاکستان چترال میں تعینات تھے’ ہمارے دفتر کے ایک نوجوان نائب قاصد سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کے گائوں کے چند نوجوان مہینے میںایک بار قریبی جنگل کارخ کرتے ہیں ‘ پہلے سب مل کر ایک درخت کاٹتے ہیں اور شام کے اندھیر ے چھاتے ہی اس کو آگ لگا دیتے ہیں پھرساتھ لیا ہوا کھانا اکٹھے بیٹھ کر کھاتے ہیں اور پھر درختوں پر چڑھ کررات گزارتے ہیں تاکہ جنگلی جانوروں کے خطرے سے محفوظ رہیں ‘ آگ سے نہ صرف وہ سردی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ خطرناک جانور قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔ علی الصبح وہ پھردرختوں سے نیچے اتر آتے ہیں اوراپنے اپنے لئے لکڑیاں کاٹ کر انہیں رسیوں سے باندھ ‘ کمر پرلاد کر گھروں کو لوٹ آتے ہیں ‘ یوں لگ بھگ ایک مہینہ ایندھن سے بے نیازہو جاتے ہیں ‘ یہ تو خیر ان لوگوں کی بات ہے جو کم آمدنی کی وجہ سے بازار سے نہ سوختنی لکڑی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں ‘ نہ مٹی کے تیل کی اور نہ گیس سلینڈر (یعنی جن جن علاقوں میں سلینڈر اب پہنچ چکے ہیں) میں گیس بھروا سکتے ہیں۔ بہرحال ان علاقوں میں عوام کی یہ خواہش ضرور ہے کہ اب ان کے علاقوں میں بھی قدرتی گیس کے پائپ بچھا کراس”نعمت غیرمترقبہ” سے انہیں بھی فیض یاب کیاجائے اور انہیں مہنگی سوختنی لکڑی ‘ مٹی کے تیل یاکوئلہ وغیرہ خریدنے سے نجات مل جائے ۔ آج سے لگ بھگ چالیس بیالیس سال ادھر کی بات ہے یعنی 80ء کی دہائی میں ہمارا تبادلہ کوئٹہ ہوا تھا ‘ وہاں سردیوں میں گھروں اور دفاتر میں شدید ٹھنڈ کامقابلہ کرنے کیلئے ”بکاری” کااستعمال عام تھا(اب بھی ہے) یہ ایک طرح کی انگیٹھی ہوتی ہے جس میں کچھ لوگ کوئلہ ‘ کچھ مٹی کاتیل اور کچھ لوگ لکڑی کے گٹلے جلاتے ہیں ‘ ہرتین طرح کی بخاری الگ الگ طریقے سے بنتی ہے ‘ حیرت کی بات یہ تھی کہ پورے پاکستان میں سوئی گیس کا استعمال تو عام تھا مگر جس صوبے سے گیس پورے ملک کو فراہم کی جاتی تھی ‘ خود اسی صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ کو بھی(تب تک) اس کے اپنے اس قدرتی خزانے سے محروم رکھا گیاتھا یہاں تک کہ سوئی کے علاقے میں بھی گیس عوام کونہیں دی جاتی تھی ‘ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال تھی جیسے کہ کسی زمانے میں ملاکنڈ پن بجلی گھر سے تو لاہور تک بجلی سپلائی کی جاتی تھی مگر آس پاس کے دیہات میںاندھیروں کاراج ہوا کرتا تھا ‘ خیربات کوئٹہ کی ہو رہی تھی جہاں سوئی گیس تو فراہم نہیں کی گئی تھی البتہ 80ء کی دہائی میں وہاں شہر کے کچھ علاقوں میں ایک پلانٹ سے گیس کی جزوی فراہمی شروع کردی گئی تھی ‘ یعنی مائع گیس کے بڑے بڑے ڈرم پلانٹ میں ڈال کر بعض علاقوں کوگیس سپلائی کی جاتی اور ساتھ ہی عام گیس سلینڈر بھی مل جاتے تھے مگر ان کاحصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ‘ اور عام شہری خود اپنے ہی علاقے سوئی کی گیس کے لئے ترستے تھے ‘ یہ سوچ کر بقول محسن نقوی کہ
آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تیری کمی ہے
یہ اتنی ساری باتیں یاد آنے کا کارن وہ ایک خبر ہے جسے پڑھ کرگلیات کے عوام خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے مگرانہیں نہیں معلوم کہ بالآخر ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ‘ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں کویہ خوشخبری دی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ان کے مطالبہ پر گلیات کے علاقوں میں سوئی گیس فراہمی کی منظوری دے دی ہے ‘ اور آئندہ چند دنوں میں گلیات میں سوئی گیس منصوبہ پرکام شروع کر دیا جائے گا ‘ یہ اعلان انہوں نے ایبٹ آباد میں یونین کونسل نملی میراکے وفد سے بات چیت کرتے کے دوران کیا’ اس اعلان کے بعد مگر ہماری حالت یہ ہے کہ وہ جو ساحرلدھیانوی کے ایک نظم میں ایک مصرعہ ہے کہ مبارک کہہ نہیں سکتا ‘ مرا دل کانپ جاتا ہے’ تو ہماری کیفیت بالکل اسی مصرعہ کی سی ہے ‘ یہ نہیں کہ خدانخواستہ ہم گلیات کے عوام کی اس خوشی میں شریک نہیں ہونا چاہتے ‘ ہم تہہ دل سے انہیں مبارکباد دیتے ہیں مگرکیاکریں کہ گزشتہ کئی برس سے صوبائی دارالحکومت پشاور کے ساتھ جو سلوک اس حوالے سے کیا جارہا ہے ‘ اور اب ہم قدرتی گیس کے لئے ترستے رہتے ہیں تو ہمیں خوف ہے کہ کہیں کل کلاں گلیات کے لوگ بھی خالی خولی پائپوں میں سے گیس تودرکنار ‘ خالی ہوا خارج ہونے کے لئے بھی ترستے رہیں ‘ ہمیں توگزشتہ سال سے سوئی گیس حکام نے ”تین روز” والی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے ‘ جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ شہر میں بڑے قطر کے پائپ بچھا کر گیس کی سپلائی معمول پرلانے کے لئے اقدام اٹھا رہے ہیں مگران تین دنوں کا لالی پاپ ابھی تک عوام چوس چوس کر خوش ہو رہے ہیں ‘ مستزاد یہ کہ ابھی چند روز پہلے گیس حکام نے گورنر خیبر پختونخوا کو ایک اورلالی پاپ تھما دیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ ان لالی پاپ کو ”چوسنے” کاعمل کب اختتام پذیر ہوتا ہے’ اس لئے گلیات کے عوام کو ہم یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ بقول مرزا غالب
دیکھ مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جوگوش نصیحت نیوش ہے
ہمیںامید ہی نہیں بلکہ پورایقین ہے کہ آج وفاقی وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی کے ساتھ ملاقات میں یونین کونسل نملی میرا کے وفد کے ارکان دل ”گارڈن گارڈن) کرکے واپس اپنے علاقے کے عوام کو یہ خوشخبری سنا رہے ہوں گے ‘ کہیں پائپ لائن بچھ جانے کے بعد ان کی حالت بھی صوبے کے باقی عوام کی سی نہ ہو ‘ یعنی ادھر گیس کا چولہا جلانے کے لئے دیا سلائی روشن کی مگر آگے چولہا ہے کہ صرف شوں شوں کی آواز ہی اس سے خارج ہو رہی ہو ‘ اس کے بعد یہی عوام کہنے پرمجبور ہوں گے کہ ہم پہ احسان جونہ کرتے تو یہ احسان ہوتا۔ کہ بقول نشاط سرحدی
دے دیا پینے کو دریائے سراب
اور رہنے کے لئے صحرا دیا

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات