موسمیاتی تبدیلی کے خطرات اور شہری منصوبہ بندی

موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کو ایک ایسا چیلنج لاحق ہوا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، درجہ حرارت میں اضافے، غیر متوقع بارشوں، خشک سالی اور سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے بعض ایسے منفی اثرات ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں ظاہر ہو رہے ہیں، اس مشکل صورت حال سے نبر آزما ہونے کے لیے مقامی اور عالمی سطح پر کئی طرح کے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں، 1992ء میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے تحت، آب و ہوا پر انسانی ساختہ نقصان دہ اثرات سے نمٹنے پر اتفاق کرتے ہوئے فریقین کی کانفرنس سالانہ منعقد کی جاتی ہے تاکہ اس بات پر غور کیا جا سکے کہ کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور پھر ان پر عمل درآمد کے لیے کس طرح پیش رفت کی جائے؟
کوپ کانفرنسوں میں سیاست دانوں، سفارت کاروں اور قومی حکومتوں کے نمائندوں کو مدعو کیا جاتا ہے، مزید برآں ماحولیاتی ماہرین، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں اور غیر ریاستی عناصر کی بھی کوپ کانفرنسوں میں فعال شرکت ہوتی ہے، کوپ 27 حال ہی میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں اختتام پذیر ہوئی ہے، اس کانفرنس جو اہم معاملات زیر غور لائے گئے، ان میں سے ایک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کوکم کرنے کے لیے شہری منصوبہ بندی کا معاملہ تھا، یہ کہا گیا ہے کہ شہر موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اگر شہروں میں ٹھوس کوششیں کی جائیں تو وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود کرنے کے حوالے سے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، دنیا کی مجموعی آبادی کا نصف سے زائد حصہ شہروں میں آباد ہے جب کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050ء تک مزید اڑھائی ارب لوگ شہری علاقوں میں رہائش اختیار کریں گے جن میں سے 90 فیصد ایشیا اور افریقہ کے شہروں میں آباد ہوں گے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مجموعی توانائی کی 78 فیصد کھپت شہروں میں ہوتی ہے جب کہ شہر عالمی سطح پر توانائی سے متعلقہ ان زہریلی گیسوں کے 70 فی صد اخراج کے بھی ذمہ دار ہیں جو کرہ ارض پر درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، شہری علاقے اکثر بالخصوص موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خطرے سے دوچار علاقوں جیسا کہ ساحلی پٹی، نشیبی علاقوں اور جزائز پر واقع ہوتے ہیں اور یہ صورت حال غیر محفوظ بناتی ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی بدولت حدت، سیلاب ،خشک سالی اور جنگل میں آگ لگنے کے واقعات کی شدت اور تعداد مزید بڑھے گی، اس لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف آئندہ کی جنگ شہری علاقوں میں لڑی جائے گی، شہری منصوبہ بندی اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے حوالے سے پہل ردعمل ہے، چنانچہ موسمیاتی تبدیلی سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے پائیدار شہر اور ٹرانسپورٹ، ماحول دوست عمارتیں اور مضبوط بنیادی ڈھانچہ یقینی بنانا ہوگا، شہری منصوبہ بندی کو موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بین الحکومتی پینل کی حالیہ رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے، کوپ 26 گلاسگو میں طے پانے والے معاہدے میں ممالک سے توقع کی گئی تھی کہ وہ موسمیاتی تبدیلی اور موافقت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حکومت کی سطح پر منصوبہ بندی کو بہتر بنائیں گے، اراضی کے استعمال کی منصوبہ بندی اور شہری مراکز کا قیام موسمیاتی خطرات کا جائزہ لیتے ہوئے عمل میں لایا جائے گا۔
آب و ہوا سے متعلقہ خطرات سے بچاؤ کے لیے شہری علاقوں میں زمین کے استعمال کے فیصلوں میں موسمیاتی سائنس کا استعمال کیا جا سکتا ہے، اس طرح کی منصوبہ بندی کا منطقی مقصد یہ ہے کہ سائنسی طور پر آب و ہوا سے متعلق خطرے سے دو چار شہری علاقوں کی نشاندہی کی جائے اور پالیسی سازوں اور مقامی کمیونٹی کے لیے بنیادی ڈھانچہ کے قیام اور آباد کاری کے حوالے سے سمت متعین کی جائے، مقامی آبادی ایک اہم فریق کی حیثیت سے کسی بھی منصوبہ بندی پر مؤثر عمل درآمد کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے، نئی تعمیرات یا دوبارہ تعمیرت کے لیے زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی اور رہائش کے فیصلوں میں مقامی کمیونٹی کو ضرور شامل کیا جانا چاہئے، اس سے مقامی کمیونٹی کو واضح سمت ملے گی اور یہ ادراک ہو سکے گا کہ کہاں سنگین خطرات ہیں، کہاں تعمیرات کرنی ہے اور کہاں نہیں کرنی؟
محفوظ شہروں اور بنیادی ڈھانچے کے لیے سٹرٹیجک منصوبہ بندی بہت اہم ہے، زیادہ سے زیادہ درخت لگانے جیسے موافقت کے اقدامات سے شہر موسمیات سے متعلقہ چیلنجز سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں، حکومتیں موزوں پالیسیوں اور لائحہ عمل کے ذریعے موسمیات سے موافقت کے حامل بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور شہری منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کاری کے حوالے سے پالیسیاں اور ان پر مؤثر عملدآرمد کا لائحہ عمل تیار کیا جائے اور موسمیاتی تبدیلی کی نئی جہتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ پالیسیوں کو بہتر بنایا جائے۔
(بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز