مشرقیات

”پیسہ ہضم اور کھیل ختم”کی مثل سنی تھی مگر ہمارے ہاں کھیل ختم ہی نہیں ہورہا اگرچہ وہ دعویٰ کر رہے ہیںکہ پلے کچھ نہیں رہا مگر سیاسی جماعتوں میں رسہ کشی دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ابھی اس مملکت خداداد میں وسائل کی کمی ہے نہ لوٹ مار کے خواہش مندوں کی اس لیے اقتدار کے لیے زور آزمائی جاری ہے اور صاف نظر آرہاہے کہ اس زور آزمائی میں ملک وقوم کا مزید نقصان کرنے کے بعد بھی کمی نہیں آئے گی۔بہرحال پھر بھی سرکار اور اس کے دسترخوان پر بیٹھے یاربیلیوں نے اپنے اقتدارکو مزید لمبا کرنے کے لیے سوچ بچار شروع کردی ہے دوسری طرف خالی خزانے کا بھی ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے تاکہ ہم مہنگائی کے گلے شکوے کم کردیں اور اچھے بچوںکی طرح زیادہ شورشرابا نہ مچائیں۔یہ بات بھی سرکار نے تسلیم کر لی ہے کہ تنخواہیں ہوں یا پنشن کی ادائیگی اس کے لیے پیسے نہیں ہیں۔دوسری طرف اس بدحالی کے باوجود ملک وقوم کی محبت میں سرکار نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑنے کی بجائے اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے ،کیسے کامیاب ہوں گے یہ ہم اس لیے نہیں جانتے کہ خود اپنے شاباش میاں نے حال ہی میں کہا ہے کہ”معلوم نہیں پیسے کہاں سے آئیں گے”۔اس کے بعد ہمیں بھی فکر لگ گئی ہے ملک وقوم کی اس لیے رات بھر سوچنے کے بعد صرف ایک ہی حل سوجھا ہے ہمیں ،سرکار گستاخی معاف کرے تو عرض کریں کہ اپنے اور اپنے خاندان کے غیرملکی اکائونٹس میں پڑی نقد رقم کا حساب کتا ب پیش کر دیں۔ساتھ میں ان جائیدادوں کی تفصیل بھی جو ” آف شور اورا آن شور”کا باعث بنتی رہتی ہیں۔انہیں بیج کر کتنے ڈالر آپ ملک وقوم کی محبت پر نچھاور کرنا پسند کریں گے۔ایسے ہی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ،سرمایہ داروں،جاگیرداروں،ریٹائر وحاضر سروس جرنیلوں،ججوں ،بیوروکریٹس نے بھی اس ملک وقوم کے بل بوتے پر جتنا مال بیرون ملک ٹرانسفر کر رکھا ہے اسے پاکستان کے حوالے کردیں۔سنا ہے دبئی میں صرف اربوں ڈالر کی جائیداد اپنے ہاں کے”مایاناز” لوگوں نے خرید رکھی ہے۔اپنے گھر کو تباہ حال کر کے لندن ،پیرس ،ٹورنٹو ،دبئی کو آباد کرنے والوں کی فہرست سامنے رکھیں۔کوئی ایک بھی ان میںایسانہیں ہوگا جو غریب الحال ہو ،سات پشتوں کے مال ودولت جمع کرکے ڈالروں میں اسے بیرون رکھنے والوں سے صرف ایک آدھ پشت کی کٹوتی کر کے دیکھ لیں ،اربوں ڈالر ہاتھ آجائیں گے ،بس یہ ہے کہ ابتدا اپنے آپ سے کرنی ہے کیا کہتے ہیں وہ کہ بارش کا پہلا قطرہ خود بننا ہے۔سب جانتے ہیں کہ ملک وقوم جس حال سے دوچار ہے یہاں تک اسے پہنچانے میں سیاسی رہنما ،سرمایہ دار ،جرنیل ،جج ،بیوروکریٹ ہی ملوث رہے ہیں ہر اہم عہدے پر بیٹھنے بندے نے ملک وقوم کا کم اوراپنے مستقبل کا زیادہ سوچا ہے اس لیے سب خوشحال اور ان کا ملک اور قوم تباہ حال ہیں اب ان سے وصولی کئے بغیر مسلے کا کوئی حل نہیں ہے لاکھ قرض کی مے پیتے رہیں ہوش وحواس جاتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار