سیاسی مکالمہ کی ناکامی

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی کشیدگی کو معمول پر لانے کی ایک اور کوشش لاحاصل ٹھہر گئی صدر کی دو وفاقی وزراء سے ملاقات کے فوراً بعد وزیر قانون نے واضح طور پر اس امر کا عندیہ دیا کہ اگر دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں تو پی ڈی ایم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخاب لڑنے کے لئے تیار ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اگرچہ پاکستان میں یہ ایک نیا تجربہ ہو گا لیکن دنیا کے بہت سے ایسے ممالک میں اس کی مثالیں ملتی ہیں جہاں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مرکز میں ہونے والے انتخابات کے ساتھ منعقد نہیں ہوئے۔دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر عارف علوی کے ساتھ حکومتی نمائندوں کی گزشتہ روز کی ملاقاتوں سمیت تمام ملاقاتیں بے سود رہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے لئے کوئی فیصلہ لینے کا اختیار عارف علوی نہیں بلکہ عمران خان کے پاس ہے ۔دریں اثناء سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ مشاورت مکمل کر لی ہے ۔قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں گے کہ ہمارے استعفے قبول کرو تاکہ ہم قومی اسمبلی سے بھی نکلیں۔دو روز قبل بھی چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ20دسمبر سے قبل اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اسی ماہ اسمبلی تحلیل ہونے جارہی ہے اس موقع پر تمام ارکان اسمبلی نے عمران خان کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان اسمبلیوں کی تحلیل پر اگر بضد ہیں اوراتحادی بھی ان کے فیصلے سے متفق ہیں توپھراس قدم میں مزید تاخیر مناسب اس لئے نہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان کے بعد سے مرکزاور صوبوں کے درمیان معاملات خاص طور پر فنڈز اور وسائل کی فراہمی کا سلسلہ تعطل کا شکار ہے جس کے باعث صوبوں کے مالی بحران کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے علاوہ ازیں اس اعلان سے پورے ملک پر اثرات ہیں جبکہ معاشی طور پر بھی اور خاص طور پر سرمایہ کاری کے خواہش مندوں پر بھی سیاسی عدم یقینی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ سرمایہ کاری سے قبل حالات کا اندازہ کر کے ہی کوئی فیصلہ کرتے ہیں بنا بریں اس اعلان پرعملدرآمد یا پھراس سے رجوع کی بڑی اہمیت ہے اس اعلان کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے اور فیصلے کی واپسی کے امکانات اور قومی اسمبلی سے استعفے کے باوجود اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچانے کی صورت میں جو مثالیں موجود ہیں وہ سبھی غیر یقینی کی صورتحال کا باعث بن رہے ہیں۔موجودہ منظر نامے میں ملک میں تین ماہ بعد تقریباً پورے ملک میں ضمنی انتخابات ہونے کا امکان ہے کہیں نہ کہیں اس تجویز یا قانونی طور پر اس کی گنجائش کا بھی امکان ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت میں اضافہ کیا جائے ممکنہ طور پر خالی شدہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کے
انعقاد کے بعد صورتحال کیا بنتی ہے اس حوالے سے کسی قسم کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے لیکن اگر مثال کے طور پر صورتحال حکومت کے حق میں ہوئی تو پھر محولہ تجویز کو عملی شکل دینے کا راستہ اختیار کرنے کا امکان بڑھ جائے گا اور اس کے لئے اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخاب کے نتائج کا جواز نکل آئے گا بصورت دیگر حکومت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر سکتی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہو گا کہ پھر بھی جھگڑا ختم نہ ہو گا بلکہ مزید گھمبیر صورت اختیار کر سکتا ہے اور اگر تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں دوبارہ کامیابی حاصل کرتی ہے تو یہ اپنی ہی حکومت تین ماہ کے وقفے کے بعد واپس لینا ہو گی البتہ اگر پنجاب میں تحریک انصاف صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر یہ اس کی اہم کامیابی شمار ہو گی جس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے جتنے بھی سیاسی دائو پیچ آزمائے جارہے ہیں اس میں تحریک انصاف کا رسک زیادہ نظر آتا ہے ایسے میں چندہ ماہ اگر تحریک انصاف مزید انتظار کرکے اپنی ساکھ متاثر کئے بغیر عام انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو یہ اس کے حق میں ہو گا ضمنی انتخابات میں ساکھ متاثر ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کے لئے عام انتخابات میں اس کی بحالی بہت مشکل ہو گی سیاسی دائو پیچ اور نفع و نقصان کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو ضمنی انتخابات کا انعقاد اور بعد ازاں چندہ ماہ بعد ہی عام انتخابات کا انعقاد ملک و قوم کے لئے سراسر نقصان کا باعث ہی ثابت ہو گایہ صورت بھی بہرصورت سیاسی انتشار کو بڑھاوا دے گی اگر بظاہر کی کشیدگی اور درون خانہ مذاکرات و معاملات سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتاہے تو پھر آئندہ دنوں میں خدانخواستہ ملک مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے صورتحال کو بہرقیمت مثبت طرف لے جانا اہل سیاست کی ذمہ داری ہے جن سے ذمہ دارانہ کردار کی توقع نہ ہونے کے باوجود بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں گے ۔مشکل صورتحال یہ بن گئی ہے کہ ملکی مفاد کی خاطر سیاسی جماعتیں ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھنے پر تیار نہیں مستزاد جانبین کی طرف سے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق سیاسی انتظار کے ماحول کے منفی اثرات کو تسلیم تو کیا جا رہا ہے اور سیاسی عدم ہم آہنگی کی فضا کو ملکی مسائل کے حل میں رکاوٹ اور معیشت کے لئے ضرر ر سان ماحول کاباعث قرارتو دیا جارہا ہے مگر اس ماحول کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنے کوکوئی بھی تیار نہیں قومی سطح کی سیاست کرنے والوں کی ذمہ داری صرف نشاندہی نہیں بلکہ مسائل کے حل کی سنجیدہ مساعی اور مشترکہ حکمت عملی بھی ہے جس کا فقدان ہے عام انتخابات کو مسئلے کا حل گردانا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاملے کے جو دیگر پہلو ہیں اور اس سے جڑے جو مسائل ہیں ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے حکومت اپنے وقت پر انتخابات کی راگ الاپتی ہے مگر اس کے پاس بھی جاری سیاسی و معاشی معاملات کا کوئی حل نہیں عدم اتفاق اور سیاسی جماعتوں کی چپقلش و محاذ آرائی کے برے نتائج ملک اور عوام ہی بھگت رہے ہیں۔قومی سطح پر مشکلات میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے سیاسی زعماء کوانا پرستی کوچھوڑ کرمفاہمت کی راہ اختیار کرنی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک