انسداد دہشتگردی کیلئے پاک افغان تعاون کی ضرورت

پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر افغانستان کے ساتھ تعاون بند کریں گے تو دہشت گردی بڑھ جائے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر افغانستان کی حکومت نے ہمارے ساتھ مکمل تعاون بھی بند کر دیا، تو یہ دہشت گردی کی جنگ جاری رہے گی اور رکے گی نہیں۔سابق وزیر اعظم نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وزیر خارجہ کو افغانستان کا دورہ کرنا چاہئے تحریک انصاف کے رہنما ء نے افغانستان سے تعلقات اورحالات کی جوتصویر پیش کی ہے وہ قابل توجہ ہے انہوں نے ٹی ٹی پی کے ارکان کی تعداد کے بارے میںجو کچھ کہا ہے ان اعداد وشمار کی روشنی میں دیکھاجائے توٹی ٹی پی کے اراکین کی تعدادمیںاضافہ ہوا ہے حالانکہ مختلف آپریشنز کے دوران ان کی ہلاکتوں اورگرفتاریوںکے بعدان کی تعداد شاید اتنی نہیں ہونی چاہئے تھی جہاں تک وزیر خارجہ کے افغانستان کے دورے کا تعلق ہے یہ تجویز مناسب ہے البتہ حال ہی میں وزیر مملکت برائے خارجہ حناربانی کھر افغانستان کا دورہ کر چکی ہیں مشکل امر یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستانی سفارتکاروں کوتحفظ حاصل نہیں اس ماحول میںمشاورت و معاملت کامتاثر ہونا فطری امر ہے اس کی ذمہ داری افغانستان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کم ازکم سفارت کاروں کے تحفظ کی توضمانت دے اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرے ۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات دہشت گردی کوقابو کرنے کے حوالے سے اہم ہیں لیکن اگر خود افغان حکومت ہی کے زیر سایہ سرحد پرباڑ اکھاڑنے اوراپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے میں کوتاہی کا مظاہرہ ہوتا رہے گا توپھرہمسایہ ملکوںکے درمیان تعلقات میں بہتری کیسے آسکتی ہے اس امرکی انہوںنے درست نشاندہی کی ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لئے دونوں ملک تیار نہ ہوئے تو دہشت گردی کی جنگ اپنے انجام کونہیں پہنچے گی بلکہ جاری رہے گی جس کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف اپنے سرحدی معاملات طے کریں بلکہ باہم مل کر خطے میں امن کے لئے خطرہ بننے والی قوتوں کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری بھی پوری کریں صرف تحریک طالبان پاکستان ہی خطے کے امن کے درپے نہیں بلکہ داعش کی صورت میں ایک بڑا خطرہ افغانستان میں موجود ہے اس کے کارندوں کی پاکستان سے گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں اوربعض واقعات میں ان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک اس مشترکہ خطرے سے مقابلہ کرنے اور اس کا صفایا کرنے کے لئے باہم تعاون کا مظاہرہ کریں۔اس میںدونوں ممالک کی بقاء ہے۔
چڑیاچگ گئیں کھیت
خیبرپختونخوا کے وزیر خوراک عاطف خان نے کہا ہے کہ اس وقت صوبے میں گندم کا کافی سٹاک میسر ہے آٹا بحران کا کوئی خد شہ نہیں ہے صوبے کی گندم کی سالانہ ضرورت تقریباً 50لاکھ میٹرک ٹن ہے۔13لاکھ میٹرک ٹن صوبے کی اپنی پیداوار ہے جبکہ ہم اپنی ضروریات پورا کرنے کے لئے 12لاکھ میٹرک ٹن پنجاب اور پاسکو سے خرید رہے ہیں علاوہ ازیں25لاکھ میٹرک ٹن گندم و آٹا نجی شعبے کے ذریعے صوبے میں آتا ہے۔خیبر پختونخوا کے وزیر خوراک کی پریس کانفرنس میں اگر آٹا بحران اور قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور سرکاری آٹا کے حصول میں مشکلات دور کرنے میں ناکامی پر بات کرکے اس پر معذرت کی جاتی تو مناسب تھامگر ان کی اس اہم مسئلے پر پریس کانفرنس کی سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پر محدود ہونا اس امر پر دال ہے کہ صوبے کے عوام کے مسائل کے مقابلے میں ان کی ترجیح سیاسی مخالفین کے لتے لیناہے۔ بہرحال اس سے قطع نظر وزیر خوراک نے گندم کے سٹاک کی موجودگی کا جو دعویٰ کیا ہے اور جوصورتحال انہوں نے بیان کی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے اورپھر آٹے کی مہنگائی کی وجہ کیا ہے ۔ صوبائی حکومت کے انتظامات کے دعوئوں کی حقیقت مارکیٹ میں طلب و رسد کے توازن اور آٹا کی مہنگائی کی صورت میں واضح ہے بہتر تھا کہ وہ گندم کی اضافی سپلائی کے ذریعے مارکیٹ میں آٹا کی قیمتوں میں کمی لاتے اور پھر سرکاری آٹا کی تقسیم کے عمل کو سہل اور شفاف بنانے کے بعد ضلعی انتظامیہ کو ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا پابند بناتے مگر عملی طور پر اس قدر بحران کے باوجود کسی ایک ذخیرہ اندوز اور سمگلروں کے خلاف کارروائی ہنوز نہیں ہو سکی اس ساری صورتحال کا سمگلروں نے خوب فائدہ اٹھایا ایسے میں حکومت کے اقدامات اب پچھتائے کیا ہوت چڑیا چگ گئیں کھیت کے مصداق ہی شمارہو گا۔
ہارس ٹریڈنگ کاالزام
پاکستان تحریک انصاف نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں ان کے پانچ اراکین اسمبلی کو ایک ارب بیس کروڑ روپے رشوت کی پیشکش ہوئی ہے۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ موجودہ حکومت جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی۔ان کا کہنا تھا کہ ایک خاتون رکن اسمبلی نے پانچ کروڑ روپے لے کر انحراف کیا، اُن کے جانے کے باوجود بھی ہمارے 188نمبر پورے ہیں جبکہ اب اپوزیشن اور پی ڈی ایم مزید اراکین کو رشوت کی پیشکش کررہی ہے۔انہوں نے اس سارے عمل کا کوئی ویڈیو یا آڈیو ثبوت بھی پیش نہیں کیا کہ الزام کی صداقت کا سوال نہ اٹھتا بہرحال ہارس ٹریڈنگ کی لعنت ہماری سیاست اور جمہوریت کے ماتھے پرکلنک کاوہ ٹیکہ ہے جس کے باعث ملک میں مستحکم حکومت قائم ہونے میں مشکلات اور اسمبلیاں بازیچہ اطفال بنی ہوتی ہیں مشکل امر یہ بھی ہے کہ سیاستدان سینکڑوں ہزاروں بار غلط بیانی کرکے اپنا اعتبار کھو چکے ہیں کہ اب اس امر کا تعین مشکل ہو گیا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ بہتر ہوگا کہ الزامات کو ثبوت کے ساتھ الیکشن کمیشن اور عدالت کے سامنے رکھا جائے اور ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار