مشرقیات

ایک لڑکا کیچڑ میں چل رہا تھا اتفاق سے امام ابو حنیفہ ادھر سے گزرے آپ نے فرمایا میاں صاحبزادے !ذرا سنبھل کے چلنا کہیں پھسل نہ جائو وہ لڑکا جانتا تھا کہ امام صاحب کون ہیں؟ بولا۔ حضرت! ا گرمیں پھسلا تو اکیلا ہی گروں گا آپ بڑے آدمی ہیں ایک دنیا آپ کو عالم سمجھتی ہے اگر آپ پھسلے اورگرے توآپ کے ساتھ وہ ہزاروں لاکھوں لوگ گر پڑیں گے جوآپ کو امام جانتے ہیں؟۔امام ابوحنیفہ نے اس لڑکے کی بات سنی تو بڑے متاثر ہوئے اس وقت آپ کے ساتھ بہت سے شاگرد بھی تھے ان سے فرمایا۔۔ دیکھو اس لڑکے نے کیااچھی بات کہی تم لوگ اس کا خیال رکھنا۔
یہ علم اورعمل کی شان ہے سب یہ بات نہیں کہہ سکتے جہاں تھوڑا بہت پڑھ لیا ذہن میں آتا ہے مستند ہے میرافرمایا ہوا علم کے لئے عقل اور اس سے بھی بڑھ کر ظرف کی ضرورت ہوتی ہے امام ابوحنیفہ ایسے تھے جو لاکھوں کروڑوں میںایک ہوتے ہیں دنیا ان کی عزت کرتی اوران کی بات مانتی تھی لیکن ذرا بد دماغی ان میں نہ تھی حضرت دائود طائی کہتے ہیں میں بیس برس ان کے ساتھ رہا پڑھتے ہوئے یا لوگوں میں بیٹھے ہوئے میں نے کبھی ان کوننگے سر نہیں دیکھا نہ کبھی پائوں پھیلا کربیٹھتے دیکھا۔ اللہ کے نبی صحابہ کرام کے ساتھ ہوتے توکبھی پائوں پھیلا کر نہ بیٹھتے حالانکہ سب آپ کے خادم اور آپ کے جان نثار تھے لوگوں میں پائوں پھیلانا غرورکی نشانی ہے یہ بات اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت ناپسند ہے حضرت دائود طائی کہتے ہیں آدمی لوگوں میں ہو اور پیر پھیلا کر نہ بیٹھے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن آدمی گھر میں بھی پیر پھیلا کر نہ بیٹھے یہ بات مجھے سمجھ میں نہ آتی تھی آخر ایکدن میں نے امام صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ حضرت گھر میں کون دیکھنے والا ہے یہاں تو آپ پیر پھیلا کر آرام سے بیٹھ سکتے ہیں جواب ملا دائود! تنہائی میں اس لئے پائوں نہیں پھیلاتا کہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔
اللہ سے ڈر کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ اپنے ایک شاگرد کے جنازے میں شریک ہونے گئے اتفاق سے اس کا مکان اس جگہ تھا جہاں ایک ایسا شخص رہتا تھا جس نے امام صاحب سے کچھ رقم قرض لی تھی نماز جنازہ کے انتظارمیں تھے سورج سر پر چڑھ آیا تھا گرمی کے دن تھے خوب گرمی پڑ رہی تھی اور کوئی جگہ سائے کی نہ تھی جہاں دم بھر کو ٹھہر سکتے سایہ بے شک ایک جگہ تھا مگروہ اس شخص کی دیوار تلے تھا جس نے آپ سے قرض لیا تھا لوگوں نے کہا آپ یہاں کھڑے ہو جائیں فرمایا نہیں میں ہاں نہیں کھڑا ہو سکتا لوگوں نے تعجب سے پوچھا آخر کیوں؟ فرمایا جس کا یہ گھر ہے وہ میرا قرض دار ہے اگر اس کی دیوار کے نیچے میں بیٹھوں گا تو اس کا مطلب ہے مجھے کچھ فائدہ ہوگا یعنی آرام ملے گا یہ فائدہ سود میں شمار ہو گا۔
جو بات اس لڑکے نے کہی تھی کس قدر سچ تھی کہ دنیا جسے بڑا مانتی ہے اسے بہت سنبھل کے رہنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت