جدید تہذیب کے شاخسانے

تہذیب کا لفظ بہت پیچیدہ اور کثیر المعانی ہے ‘ہر شخص اور قوم کے ہاں اس کے الگ معانی ہوتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود انسانیت کے بعض رسوم و رواج اور طور طریقے اور بودو باش مشترک بھی ہوتے ہیںانسان ہونے کے ناتے تہذیب کے کئی ایک اقدار مثلاً کھانا پینا ‘ لباس اور اسی طرح زندگی کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے بہت مشابہت اور اشتراک کی حامل ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود تہذیب جب معیشت اور مالی مفادات کے ساتھ روابط وتعلق پیدا کرلیتی ہے تو انسانوں اور ان کے معاشروں کے درمیان اختلافات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔ ورنہ جب زندگی سیدھی سادی تھی تو دنیا کے تمام انسانوں اور معاشروں کی بنیادی ضروریات( روٹی کپڑا مکان) مشترک تھیں اور انسانیت کی بنیادوں پر لوگ ان بنیادی ضروریات کی اشیاء آپس میں ضرورت کے تحت ایک دوسرے کے لئے وقف کرنے یا استعمال میں لانے کو انسانیت کا ایک لازمی جزو سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں تاجر اورکاروباری لوگ ضرورت کی اشیاء کو مہنگے داموں فروخت کرنے کی غرض سے ذخیرہ نہیں کرتے تھے ۔ یوں عوام مہنگائی کی لعنت سے محفوظ رہتے تھے ۔ دسمبر ‘ جنوری کے کڑاکے کی سردیوں میں صاحب ثروت لوگ غریب غرباء اجناس یعنی گندم وغیرہ بطور جنس قرض حسنہ کے دیتے اور اچھا وقت آنے پرجنس یعنی گندم ہی واپس کرلیتے تھے ۔ تب تہذیب نے ترقی نہیں کی تھی ‘ تب اصل زر کو انٹرسٹ (منافع) کے خوبصورت نام پر بڑھانے کی آرزو پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس سیدھی سادی زندگی کے پیچھے اسلام کے سادہ اور زرین اصول تھے جیسے کہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کے درمیان اخوت وبھائی چارے کے بندھن مضبوط رکھنے کے لئے فرمایا ہے کہ ”پانی ‘ آگ اور چراگاہیں ” مشترک ہیں یعنی ان عام استعمال کی چیزوں پر سب انسانوں کا بلا امتیاز رنگ ونسل اور مذہب و علاقہ کے برابر کا حق ہے۔لیکن پھر دنیا نے ترقی کی ترقی مغرب کی طرف سے آئی اور اس بات میں شک نہیں مغرب نے گزشتہ سو برسوں میں جوترقی کی ہے اس نے انسانی زندگی کو بہت سی سہولیات دینے کے ساتھ
اس کو حیران کن حد تک پرتعیش بھی بنایا ہے ۔ آج سائنسی ترقی کی بدولت جو سہولیات ایک عام آدمی کوحاصل ہیں وہ آج سے ڈیڑھ صدی قبل بادشاہوں کوبھی حاصل نہ تھیں ۔ لیکن اس ترقی نے انسانی معاشروں کو ایک بہت ہی عجیب اور مشکل خلفشار سے بھی دو چار کیا ہے ۔ انسانیت نے یہ ترقی مغرب میں آزادی کے عقیدے کے نام پرحاصل کی ہے ۔ آزادی اظہار و افکار نے بے شک مشرق و مغرب میں بہت سے اوہام اور باطل تصورات کو ختم کیا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی ایک قیمتی اور انسانیت نے لازمی اقدار کو بھی زوال سے دو چار کیا ہے ۔اس ترقی نے انسانی معاشروں کو مسابقت کے نام پر ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے جس سے اکثر اوقات تہذیب و فکری تصادم کے علاوہ عسکری تصادم بھی جنم لے لیتا ہے ۔ ہنٹنگٹن کی”تہذیبوں کا تصادم” تقریباً اسی نظریے پرمبنی ہے لیکن انسانی معاشروں نے موجودہ ترقی کی جوقیمت ادا کی ہے وہ اس کے اقدار کے خاتمے پر منتج ہونے لگی ہے ۔
آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں جو لوگ ترقی کے دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ‘ وہ نہ صرف ترقی یافتہ زندگی کی سہولیات و تعیشی سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ ان کا انجام بھی بہت برا ہونے کے ساتھ ساتھ بعض حوالوں سے بہت قابل رحم بھی ہوتا ہے ۔ پاکستان میں موجودہ حالات اس لحاظ سے اس ترقی کی بہت اصلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کسی کو روٹی میسر نہیں اور بچوں کے لئے آٹے کے ایک تھیلے کے حصول پرجان کی بازی لگا دیتے ہیں اور بعض ظالم صرف جلب زر کے لئے آٹے کو سمگل کرکے مافیا کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں۔موجودہ ”ترقی یافتہ ” معاشرے میں مسابقت کے سبب کم تر ”قابلیت وصلاحیت” والوں کے لئے بہت کم مواقع ہوتے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ معاشروں کی مارکیٹ میکانزم ان کو قبول نہیں کرتی اور نتیجتاً وہ زندگی کی ضروریات سے محروم رہتے ہیں۔ مغرب نے تو پھر بھی ان کمتر عناصر کے لئے بعض ایسے ادارے بنائے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو فوڈ اسکیم اور بے روزگاری الائونس کے نام پرمدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ این جی اوز وغیرہ کا عموماً یہی کام ہوتا ہے ۔ لیکن سرمایہ دار اور ترقی یافتہ معاشروں میں کچھ لوگ خود دار اور بہادر ہونے کے سبب ”خیرات ” قبول نہیں کرنے کو اپنی تحقیر سمجھتے ہیں لیکن وہ ترقی یافتہ زندگی کی سہولیات حاصل کرنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں لہٰذا ایسے لوگ بدمعاش اور مجرم بن جاتے ہیں اور وہ جو خوددار تو ہوتے ہیں لیکن بہادر نہیں ہوتے ‘ سرمایہ داروں کے ناز نخرے دیکھ دیکھ کر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں یا خود کشی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پختونوں کے عظیم شاعر اجمل خٹک نے بھی اسی چیز کی طرف کرتے ہوئے کہا تھا
ستا پہ رضا زما رضا دہ ربہ
کانڑی ہم نفس پورے تڑلے شمہ
خو چہ بل خامار پہ خزانو اوونیم
آخرانسان یم سنگہ غلے شمہ
دنیا کی جدید معاشروں کی ترقی اٹھارھویں صدی کے بعد ہوئی ہے ۔ انسانی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں آج کی طرح نہ جیل خانے تھے ‘ نہ پاگل خانے ‘ جو لوگ جیلوں اور پاگل خانوں سے بچ نکلتے ہیں وہ مافیاز کی صورت میں معاشروں میں دندناتے پھرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج عالمی معیشت کا تیس فیصد حصہ اسی مافیاز کے قبضے میں ہے ۔ نرسنگ ہومز ‘ ہسپتال ‘ یتیم خانے ‘ ڈے کیئر سنٹرز اور اولڈ ہوم اس جدید تہذیب کے شاخسانے ہیں جس پر اکثر فخر بھی کیا جاتا ہے اور ہم بھی جانے انجانے بہت بری طرح اس کے شکار ہو رہے ہیں جس تہذیب میں بچوں کے لئے ماں کی گود میسر نہیں ہوتی ۔ والدین اپنے بچوں کو گھروں پرنہیں پال سکتے اور بوڑھے بزرگ اولڈ ہوم میں اپنے بچوں کی راہ تکتے مر جاتے ہیں اس انسانی معاشرے پرترس ہی کھایا جا سکتا ہے ۔ ہمارے ہاں بھی ترقی کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ لیکن کوئی ہے جو مغرب کی ترقی کا کوئی حساب کتاب بھی پیش کرے کہ انسانیت نے ترقی کے خوشنما نام پر کیا کھویا ہے اور یا پایا ہے ؟۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن