دنیا کا سب بڑا مقروض دیوالیہ نہیں

اس میں شک نہیں اور نہ کوئی دوئی پائی جا تی ہے کہ پاکستان اقتصادی ومعاشی طور پر اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے دوچا ر ہے پوری معیشت قر ض کے کھا تے میںچلی گئی ہے اور جہا ں ذرا سی بھی کوئی سخت پہلو سامنے آجا تا ہے تو کچھ عنا صر سری لنکا کی رکعاتیں پڑھنا شرو ع کر دیتے ہیں ، رکعاتیں پڑھنے والے وہ ہی عنا صر ہیں جنہوں نے سیاسی اودھم مچا رکھا ہے جب کہ جا نتے ہیں کہ سیا سی استحکا م کے بغیر ملک نہ اقتصادی طور پر نہ معاشی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے ،ملک کے دیو الیہ کو پیٹنے والوںسے ذرا کوئی یہ توپو چھے کہ جاپان دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے وہ کیو ں دیوالیہ نہیںہو تا ، اسے تو کب کا سری لنکا قرار دے دیناچاہیے تھا ،جا پان گزشتہ ستمبر تک مجموعی طور پر 9.2کھرب امریکی ڈالر تک کا مقروض ہو چکا تھا ، جو جا پان کی جی ڈی پی کا 266فی صد قرار پاتا ہے ،دنیا میں قرضے کی معیشت میں سب سے زیا دہ ہے مثلاً اگر جاپان کے مقابلے میں امریکا کے قرضوں کاحجم دیکھا جائے تو یہ 31 کھرب ڈالر ہے لیکن یہ رقم امریکا کے کل جی ڈی پی کے کل98 فیصد کے برابر بتایا جاتا ہے؟۔ قرضوں کے اتنے بڑے حجم کے یہاں تک پہنچنے میں چند سال کا نہیں لگے بلکہ ملکی معیشت کو رواں رکھنے اور اخراجات پورا کرنے کی جدوجہد کی مد میں لیے گئے قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں کئی دہائیاں لگی ہیں۔ جاپان کے شہری اور معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے کاروباری ادارے قرضوں کے استعمال میں ہچکچاتے ہیں جبکہ ریاست اکثر انہیں خرچ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے نان ریزیڈینٹ سینیئر فیلو تاکیشی تاشیرو کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے طور پر بہت زیادہ بچت کرتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کا رواج نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ جاپان میں بڑی آبادی کا عمررسیدہ یا بزرگی کی عمر میں ہونا ہے جس کے باعث حکومت کے سوشل سکیورٹی اور صحت کی خدمات پر اٹھنے والے اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ جاپان کی بیشتر آبادی کوریٹائرمنٹ کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ بے یقینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے وہ ذاتی بچت کو ترجیح
دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں سیاسی و معاشی استحکا م مو جو د ہے ،ادھر گزشتہ بدھ کو سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے ڈیو س میں عالمی اقتصادی فورم کی تقریب میں پو چھے گئے ایک سوال کے جو اب میں کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا دوست ملک ہے اور اس وقت سعودی عرب ترکی ، مصر اور پاکستان کو مالی امداد دے رہا ہے سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے بتایا کہ سعودی عرب خطے کے ممالک میں معاشی اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انھیں براہ راست گرانٹس و ڈیپازٹس دیتا ہے جن میںکوئی شرط عائد نہیں کی جا تی چنا نچہ امداد لینے والے ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے یہا ں اصلا حات نا فذکر یں ، انھو ں نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب کئی اداروں کے ساتھ کام کررہا ہے تاکہ بتاسکیں کہ سعودی عرب بھی اصلاحات دیکھناچاہتا ہے ، سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب کے عوام پر بھی ٹیکس عائد کئے گئے ہیں ، یہا ں سعودی وزیر خزانہ نے ایک اہم ترین بات بھی
کی کہ سعودی عرب امریکی ڈالر کے علا وہ دوسری کر نسیوں میں تجا رت کے لیے بات چیت کر نے کو تیا ر ہے ، اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی ملی کہ چین اور سعودی عرب اس امر پر رضامند ہو گئے ہیں کہ مقامی کر نسی میں تجا رت کر یں گے ۔ سری لنکا کی رکعتیں پڑھنے والو ں نے تو سعودی عرب کے وزیر خزانہ کے اس بیان کی تو گڈی آسما ن سے بھی اوپر چڑھا دی کہ انھوں نے اصلاحات کی بات کی ہے ، حالاں کہ اصل صورت حال ہے کہ اگر کسی محلہ کا ایک ہمسایہ بھی اپنے ہمسایہ کو قر ض دیتا ہے تو پہلے یہ اطمنیان کر لیتے ہے کہ ہمسائے سے قرض واپس مل سکے گایانہیں پر قرضے کی رقم ہا تھ میں تھما تا ہے ، علا وہ ازیں ایک اور اہم بات یہ ہوئی تھی کہ کرونا کے عروج کے زمانے میںبین الاقوامی امدا د پانچ ارب ڈالر ملے تھے جو کر ونا کے متاثرین کے علا ج ومعالجہ کے لیے تھے مگر حکومت وقت نے وہ رقم سبسڈی کی ادائیگی میں لگا دی ، اور سیا سی مقاصد کے لیے رعایتیں بانٹنے میںصر ف کیں ، جس میںسے ایک رعایت یہ بھی تھی کہ بجلی کے بل معاف کردیے گئے جس کا امدا د دینے والے ممالک اور اداروں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ،سعودی وزیر خزانہ الجدعان کا یہ کہنا کہ ان کی حکومت اپنے عوام پر بھی ٹیکس لگا رہی ہے اس جا نب اشارہ ہے کہ سبسڈی کا سلسلہ ختم ہو نا چاہیے تاکہ معاشی مشکلا ت سے نکلا جا سکے ، آئی ایم ایف کا بھی برسوں سے ایسے مشکل فیصلے کر نے پر پاکستان پر زور چلا آرہا ہے ہنو ز بھی آئی ایم ایف آگے اسی لیے قدم نہیںبڑھا رہا ہے کہ اس کا سارا زور سبسڈی اور ٹیکس وصولی کے مطالبے پر ہے کیوںکہ وہ یہ یقین چاہتا ہے کہ اس کی دی گئی رقم کھو کھاتے نہیں چلی جائے گی بلکہ محفوظ رہے گی ،چین ، روس اورسعودی عرب کی اس تجویز سے بہتر نتائج نکلیں کے گہر ے امکا ن ہیںاگر تجا رت کا سلسلہ مقامی کر نسی میںہونے لگے اس وقت پاکستان کی بندر گا ہو ں پر اربوں روپے کا مال پڑا ہوا ہے مگر زرمبادلہ کے ذخائر جو ڈالر کی صورت چاہیں دستیا ب نہیں ہیں ان کی وجہ سے تجا رت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے پاکستان کی صنعت بھی بری طر ح متا ثر ہو رہی ہے ، گیس اور بجلی کی ناپیدی بھی معاشی استحکام میں روک لگائے ہوئے ہے ،یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستا ن میں صحیح طور پر اور مکمل طورپر سرکا ری و غیر سرکا ری ملا زم اور غریب عوام ہی ٹیکس دیتے ہیں ، اونچے طبقہ جو خود کو اشرفیہ قراردیتا ہے وہ بری طرح ٹیکس کی ہیرا پھیر ی میں ملو ث پایا جا تا ہے ، اگر ان پر ٹیکس عائد بھی کیاجا تا ہے توپہلے وہ عوام سے ٹیکس وصول کرتے ہیں اشیاء وغیر ہ کی قیمتیں بڑھا کر وہ بھی ٹیکس سے کہیں زیا دہ قیمتیں بڑھا دیتے ہیں پھر اس میں بھی ٹاکا ما ری کر کے حکومت کو ادائیگی کرتے ہیں چنا نچہ حکومت کو پہلے اپنی انتظامیہ کا قبلہ درست کرنا ہو گا ۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ٹیکس وصولی پوری طرح ہو تو اس کا واحد حل ہے کہ چھبیس فی صد اشرفیہ جو ملک کے وسائل پر قابض ہے ان پر براہ راست ٹیکس کانظام عائد کیا جا ئے عوام پر براہ راست بوجھ نہ ڈالا جا ئے کیوں کہ وہ بالواسطہ بھی مہنگائی اور ٹیکس کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے