نگران وزیر اعلیٰ کا امتحان

صوبہ پنجاب میںنگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی میںاتفاق رائے نہ ہو سکا جس کے باعث نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کافیصلہ اب الیکشن کمیشن کرے گادوسری جانب خوش آئند امر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں غیر متوقع پر خیبر پختونخوا میں نگران وزیرا علیٰ کے نام پرسابق وزیر اعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی میں اتفاق رائے ہونے کے بعد سابق چیف سیکرٹری اعظم خان صوبے کے نگران وزیر اعلیٰ بن گئے احسن امر یہ ہے کہ یہ فیصلہ اتفاق رائے سے بحسن و خوبی دونوں طرف کے بیانات سے کسی طور اس کا امکان نظر نہیں آرہا تھا بلکہ دونوں مل بیٹھنے کو بھی تیار نہ تھے ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ معجزہ ہو گیا یا پھر کچھ درون خانہ کوششوں کے باعث ممکن ہوا بہرحال جو بھی ہوا خوب ہوا۔ نگران وزیر اعلیٰ کے لئے ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا ہے جو سب کو قابل قبول ہے اس موقع پر ملاقات میں محمود خان نے کہا کہ اس صوبہ کے عوام نے ہمیں عزت دی یہ فیصلہ اگر آج نہ کرتے ضد اور انا کا مسئلہ بناتے تو عوام مایوس ہوتے۔ اکرم درانی نے تسلیم کیا کہ معاملہ حل کرنے میں پرویزخٹک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان اس سے قبل بھی دو نگران سیٹ اپ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بطور بیوروکریٹ چیف سیکرٹری سمیت کئی اہم عہدوں پر بھی خدمات انجام دی ہیں ۔متفقہ نامزدگی کے بعد بطور نگران وزیر اعلیٰ کی یقینا ان کی کوشش ہوگی کہ وہ فریقین کے اعتماد پر پورا اتریں اور حکومتی و عوامی معاملات کواپنے وسیع تجربے کی روشنی میں احسن طریقہ سے انجام دیں۔ بطور سابق بیورو کریٹ بیورو کریسی سے ان کی واقفیت اورمعاملات پرگرفت کے باعث ان کوصوبے کے معاملات نمٹانے میںزیادہ مشکلات کا سامنا تو نہ ہوگاالبتہ اسے برقرار رکھنا اپنی جگہ اہمیت کاحامل امر ہوگاتاہم اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری کام امن وامان برقرار رکھنا اور دہشت گردی کی عود کر آنے والی لہر کا مقابلہ اور صوبے کواس سے نکالنا نگران وزیر اعلیٰ کابڑا امتحان ہوگا۔جوکوئی آسان کام نہیں بلکہ بڑا چیلنج اور نگران وزیر اعلیٰ کے مینڈیٹ سے بڑا کام ہے توقع کی جانی چاہئے کہ جس قسم کی مفاہمت کی فضا میں نگران وزیراعلیٰ کے نام پراتفاق کیاگیا ہے سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کے دوران بھی اسی طرح کے جذبے کا مظاہرہ کریںگی اور انتخابات کاانعقاد وبخیر وخوبی تکمیل ہوگی اور اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل ہو گی۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا