ہائے ری سیاست تیری کونسی کِل سیدھی

قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے مزید 35ارکان کے استعفے منظور کئے جانے پر سابق وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کا کہنا ہے کہ 36فیصد کی نمائندہ پارلیمنٹ پر قابض لوگوں نے ملک اور نظام کو یرغمال بنارکھا ہے۔ سپیکر سے ملاقات کے لئے پارلیمنٹ ہائوس پہنچنے والے پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے استعفوں کی منظوری کے عمل کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خوفزدہ حکومت آخر ہمارے تمام ارکان کے استعفے منظور کرکے عام انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دیتی۔ استعفے منظور کرنے کے اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ میڈیا اور جلسوں میں استعفے منظور کرنے پر زور دیتے ہوئے سماجی اخلاقیات پر حملہ آور جماعت کے ارکان اب شکوہ کناں کیوں ہیں وہ تو خود مطالبہ کررہے تھے کہ ان کے استعفے منظور کئے جائیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اب تک تین مرحلوں میں پی ٹی آئی کے 79ارکان سمیت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا استعفی منظور کرچکے ہیں۔ ایک ہفتہ کے دوران پی ٹی آئی کے بالترتیب 34اور 35 ارکان کے استعفوں کی منظوری کے عمل کو عمران خان کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی کے باعث پیدا شدہ مسائل پر جوابی وار قرار دیا جارہا ہے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ خالی جنرل نشستوں پر ضمنی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ گزشتہ دنوں 35ارکان کے استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے تمام خالی نشستوں پر عمران خان کے واحد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ جمعہ کو پی ٹی آئی کے جن 35ارکان کے استعفے منظور کئے گئے ان میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی 4خواتین ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔ اس طور اب ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی کی63نشستوں پر اپنی جماعت کے تنہا امیدوار ہوں گے ۔البتہ یہ قانونی نکتہ جواب طلب ہے کہ ایک ایسا رکن جس نے قبل ازیں رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے 7 مزید نشستوں سے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہو وہ حلف اٹھائے بغیر مزید نشستوں پر امیدوار بن سکتا ہے۔ عمران خان بظاہر حلف اٹھانے کے موڈ میں نہیں۔ اپریل 2022 میں شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اجتماعی استعفے دینے والوں میں عمران خان کا استعفی بھی شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے جن 79 ارکان قومی اسمبلی کے تین مرحلوں میں استعفے منظور کئے گئے ان میں عمران خان کا نام شامل نہیں۔ اس وقت
وہ میانوالی کی نشست سے 2018 سے رکن ہیں۔ پچھلے برس کے ضمنی انتخابات میں سات مزید نشستوں سے کامیاب ہوئے۔ انہوں نے آٹھ حلقوں سے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ کراچی کے ایک حلقے سے کامیاب ہوئے جبکہ دوسرے حلقے سے پیپلزپارٹی کے امیدوار سے شکست کھاگئے تھے۔ گزشتہ روز انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں عمران خان کی جانب سے اب تک کھیلے گئے کارڈ کو پی ڈی ایم کے اوسان خطا ہونے کا سبب بتاتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ میں اب مزید ایسے کارڈ کھیلوں گا جس سے پی ڈی ایم کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ جوابی طور پر پی ڈی ایم کے سپیکر قومی اسمبلی نے ایک ہفتہ کے دوران پی ٹی آئی کے 69ارکان کے استعفے منظور کرکے عمران خان کے کیمپ میں ہلچل مچادی ہے۔ پی ٹی آئی کے جو رہنما جلسوں اور ٹی وی پروگراموں میں استعفے منظور نہ کرنے کو خوف کا نتیجہ قرار دیتے تھے اب استعفوں کی منظوری کو خوف کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ استعفے منظور کرنے کی حکمت عملی بنیادی طور پر عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپس جانے اور مستقبل کے نگران سیٹ اپ میں بطور اپوزیشن جماعت اپنا کردار ادا کرنے کے عندیہ کے بعد اپنائی گئی۔ ایک طرح سے پی ڈی ایم کے بڑوں نے عمران خان سے وہ کارڈ چھین لیا جسے چلانے کی صورت میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی قیادت کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا۔ بظاہر اب عمران خان اور ان کے ساتھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ سپیکر نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور اس کے معاشی شعبہ پر مرتب ہوئے منفی اثرات ہر دو کے پیش نظر سیاسی قائدین کو جس تحمل و برداشت اور تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اس کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتیں یہ
موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ عمران خان نے سیاسی اختلافات کو گالی بنادیا ہے۔ ان کے حامی سوشل میڈیا کے ذریعے نفرتیں بونے میں مصروف ہیں اس لئے ایک غیرسنجیدہ اور غیرسیاسی فہم رکھنے والی جماعت سے کوئی امید ہے نہ اس سے بات چیت کی ضرورت۔ یہ رائے کتنی درست اور غلط ہے اس کا جواب گزشتہ برس کی اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جس سے عمران خان کی وفاقی حکومت تحلیل ہوئی اپنائے گئے ان کے طرز عمل سے مل جاتا ہے۔ پچھلے آٹھ نو ماہ کے دوران عوام الناس سیاسی قیادت سے دردمندانہ انداز میں یہی درخواست کرتے رہے کہ وہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری ختم کرنے کے لئے باہم مل بیٹھیں تاکہ اصلاح احوال کی کوئی صورت بن سکے۔ افسوس کہ سیاسی قائدین نے عوامی خواہشات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ گو صورتحال کی ذمہ داری کے حوالے سے فریقین ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہراتے ہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ دوچند ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجائی جاسکتی۔ بہرحال عمران خان کے کارڈوں کے جواب میں پی ڈی ایم کی جانب سے کھیلے گئے شارٹس سے لگتا ہے کہ پی ڈی ایم نے بھی اب کھل کر کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جمعہ کومزید 35 ارکان کے استعفے منظور کئے جانے کے بعد بھی اگر پی ٹی آئی اسمبلی میں واپس جاتی ہے تو اسے اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی کے منصب نہیں مل سکیں گے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ اگلے چند دنوں میں پی ٹی آئی کے مزید 15ارکان کے استعفے بھی منظور کرلئے جائیں گے۔ اس طور اب بنیادی سوال یہ ہوگا کہ کیا وفاقی حکومت وقت سے پہلے انتخابات کرانے پر آمادہ ہوگی؟ فوری طور پر اس کا جواب یہی ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔ عمران خان نے گزشتہ روز کہا کہ اگر عام انتخابات کی تاریخ نہیں ملتی تو وہ اپنے حامیوں کو سڑکوں پر نہیں لائیں گے۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں زیرسماعت بعض مقدمات کے باعث عمران خان یہ خطرہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ حکومت کسی کے ایما پر انہیں نااہل قرار دلوانا چاہتی ہے۔ غالبا اسی لئے گزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے نااہل قرار دے دیا گیا تو عوام پی ٹی آئی کے نظریہ کو ووٹ دیں گے۔ اندریں حالات یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ کارڈ کھیلنے کے حوالے سے فریقین کا شوق پورا ہوگیا ہو تو ملک اور عوام کو درپیش مسائل کے حل پر بھی توجہ دے کر دیکھ لیا جائے۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت