صحافی نشانے پر

دارالحکومت پشاور میں منشیات فروشی اور سٹریٹ کرائمز کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جن میں موبائل چھیننے کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ کئی صحافی بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔رواں ماہ جنوری میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پشاورکے چھ صحافیوں سے گن پوائنٹ پر موبائل چھینے گئے جن میں تین رپورٹرز اور دو کیمرہ مین شامل ہیں۔عام موبائل چھینے جانے سے مالک صرف موبائل سے محروم ہوتا ہے جبکہ صحافی کاموبائل ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے جس میں اس کے پورے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کا اہم ریکارڈ اور ضروریات سٹور ہوتا ہے سٹریٹ کرائمز میں نشے کے عادی نوجوان ملوث ہیں اب تو خواجہ سرا بھی شامل ہوگئے ہیں۔پولیس کی بھی مشکل یہ بن گئی ہے کہ وہ ملزمان گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کرتی ہے مگر ملزمان کچھ دن بعد رہا ہو کر واپس آ جاتے ہیں اور پھر وارداتیں شروع کر دیتے ہیں۔پولیس کی مشکل سے اتفاق کے باوجود بہرحال عدالت کے فیصلے کے حوالے سے کسی قسم کی رائے زنی اس لئے مناسب نہیں کہ عدالتیں بھی ایک مقررہ نظام انصاف کے تحت قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں بہرحال یہ ایک قابل غور مسئلہ ضرور ہے جس کے لئے قانون سازی اور قوانین کوسخت بنانے کی ضرورت ہو گی البتہ پولیس اسطرح کے عناصر کی مسلسل نگرانی اور ہر واردات کے بعد ان عناصر پرسب سے پہلے ہاتھ ڈال کر تفتیش کاآغاز کرسکتی ہے نیز پولیس موجودہ کالی بھیڑوں کی اس طرح کے عناصر کی سرپرستی بھی کوئی راز کی بات نہیں بعض وارداتوں میں جب پولیس کو غیرمتوقع دبائو کا سامنا ہوتا ہے تو وہ جس قدر پھرتی سے مال مسروقہ برآمد کرکے دیتی ہے اس سے تو یہ شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ پولیس کی ملی بھگت اور سرپرستی کے بغیر جرائم پیشہ عناصر جرم کرکے زیادہ عرصہ قانون کی گرفت میں آنے سے محفوظ نہیں رہ سکتے رہزنی کی بڑھتی وارداتیں پولیس کے موٹرسائیکل سواراورگاڑی میں گشت کرنے والے عملے اور تھانوں کی موبائل گشت وغیرہ کے نظام پر سوالیہ نشان ہے ۔ حیات آباد میںاس طرح کی وارداتوں میں جن انتظامات کے ذریعے کمی لائی گئی کیا شہر کے دیگر علاقوں میں ایسا ممکن نہیں۔پولیس کو صحافیوں کو موبائل فون کے بدلے موبائل فراہم کرکے معاملہ دبانے کی سعی کرنے کی بجائے جرائم پیشہ افراد کو نکیل ڈالنے اور موبائل چھیننے و رہزنی و منشیات فروشی میں کمی لانے کی پیہم سعی کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام