سعی پیہم کی ضرورت

کھلی کچہری کا ڈرامہ

حیات آباد اور یونیورسٹی ٹائون سمیت شہر کے مختلف علاقوں کاایک مشترکہ مسئلہ یہ چلا آرہا ہے کہ ہتھ ریڑھیاں جا بجا سڑکوں پرکھڑی ہوتی ہیں ساتھ ساتھ کباڑی اور سبزی و دیگر اشیاء فروخت کرنے والے لائوڈ سپیکر پر دن بھرآوازیں لگاتے رہتے ہیں بعض علاقوں میںغیر قانونی ہاسٹلز میں مقیم طلباء و طالبات کی معمولات سے بھی شہری نالاںہیں ضلعی انتظامیہ پشاو رکی کھلی کچہری میں عوام نے سب انتظامی افسران کے سامنے رکھا اس موقع پر لوگوں نے افسران کو اپنے مسائل کے بارے میں بتایا شکایات کی گئی کہ شہر میں نالیوں کی صفائی ترجیحی بنیادوں پر کی جائے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار گلیوں کی فوری مرمت کی جائے ہتھ ریڑھی والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے پولیس کا گشت بڑھایا جائے او ر خراب سٹریٹ لائٹس کو فوری تبدیل کیا جائے سوئی گیس کا پریشر بڑھایا جائے۔ غیر قانونی ہاسٹلز کے خلا ف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے ، اس موقع پر تحریری درخواستیں بھی دی گئیں۔اب بال انتظامیہ کے کورٹ میں ہے لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں نہ خنجر اٹھے گانہ تلوار یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں کاتبصرہ خلاف واقعہ نہ ہو گا بلکہ حقیقت حال کی درست ترجمانی ہوگی ا مر واقع یہ ہے کہ انتظامیہ کھلی کچہری منعقد کرنے کی زحمت کبھی کبھار گواراکرکے عوام کو درپیش مسائل کے حل کی یقین دہانی تو کراتی ہے لیکن کم وبیش ہرعلاقے کے عوام محولہ مسائل کی ہی باربارشکایت کرتے ہیں لیکن ان مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات ہمیشہ تشنہ ہی رہ جاتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسائل کے حل میں سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کرنا تھا تو پھران لاحاصل کھلی کچہریوں کے انعقاد کی ضرورت ہی کیا ہے یہ مسائل ایسے نہیں جن کے حل کے لئے بھر پور وسائل کی ضرورت ہو تھوڑی سی انتظامی حرکت سے مسائل میں کمی آسکتی ہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔توقع کی جانی چاہئے کہ ضلعی انتظامیہ اس طرح کے نمائشی اقدامات پر اکتفا نہیں کرے گی بلکہ جس مقصد کے لئے کھلی کچہریوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ان مقاصد کے حصول کی سعی بھی کرکے عوامی مشکلات میں کمی لائی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا