چند مرحوم و مغفور کتابیں

کبھی کبھی اپنی ذاتی لائبریری کی کتابوں کو ترتیب دینے ، صفائی کرنے اور دھوپ لگنے کے لیے ایک دن مختص کر لیتا ہوں ۔ پھربہت سی کتابوں کو جَستہ جَستہ پڑھنے، دیکھنے اور ورق گردانی میں کئی گھنٹے گزر جاتے ہیں ۔ کچھ روز قبل معمول کے مطابق انہی کتابوں کے ساتھ وقت گزار رہا تھا کہ چند پرانی کتابوں کو دیکھ کر یہ خیال آیا ۔ یہی کہ ہماری طرح کتابوں کا بھی ایک زمانہ ہوتا ہے ، نام ہوتا ہے ، چرچے ہوتے ہیں ، قبول عام حاصل کرتی ہیں ، گھر گھر اور لائبریریوں میں دستیاب ہوتی ہیں ، پھر زوال آتا ہے اور ناپید ہو کر نام بھی مٹ جاتا ہے ۔ ڈپٹی نذیر احمد کی یہ دو کتابیں ”بنات النعش ” اور ” مراة العروس ” کسی زمانے میں ہر گھر کی زینت ہوا کرتی تھیں ۔ ڈپٹی صاحب کا شمار اُن مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے عورتوں کی تعلیم و اصلاح کی طرف توجہ فرمائی اور ایسی مبسوط کتابیں لکھیں ۔ ہمارے ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ اُن کی دادی محلہ کی لڑکیوں کو قران مجید اور بہشتی زیور کے ساتھ یہ دونوں کتابیں بھی پڑھاتی تھیں ۔ یہ کتابیں جلد ہی پڑھے لکھے گھرانوں میں بے ہودہ اور بے سر و پا قصوں کا بدل بن گئیں ۔ مراة العروس تو وہ کتاب ہے جس پر ڈپٹی نذیر کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری ملی تھی ۔ آج ہماری بچیوں کو ان کتابوں کا نام بھی نہیں آتا۔
مولانا راشد الخیری کی کتاب’ صبح زندگی ‘ اور دیگر کتابیں کسی زمانے میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی تھیں ، مگر اب کوئی ان کا نام بھی نہیں لیتا ۔
عورتوں کی ان کتابوں کے ذکر سے دو رسالے’ تہذیب نسوں ‘ اور ‘ عصمت ‘ کا تذکرہ بھی ضروری جانا۔ میرے پاس عصمت کا ایک پرچہ ہے، چند صفحات ضائع ہو چکے ہیں، راشد الخیری اور رازق الخیری اس پرچہ کے مدیر
تھے۔ مولوی سید ممتاز علی کی اہلیہ محمدی بیگم نے تہذیب نسواں جاری کیا ۔سید صاحب کا سرسید احمد خان سے تعلق رہا اور اُنہوں نے تہذیب الاخلاق کی طرح عورتوں کے لیے اس پرچہ کا نام تہذیب نسواں رکھا ۔سید صاحب نے بچوں کے لیے بھی ‘پھول ‘ نامی پرچہ جاری کیا تھا ، بیسویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے بچوں میں ایسا کوئی نہ ہو گا جو اس سے مستفید نہ ہوا ہو ۔ یہ پرچہ لاہور سے نکلتا تھا ، سید امتیاز علی تاج تو خیر ان کے فرزند تھے مگر عبدالمجید سالک ، غلام رسول مہر ، مرتضیٰ میکش اور حفیظ جالندھری جیسے مشاہیر اس کے مدیر رہے ۔ میرے پاس پرانے ادبی رسائل بھی ہیں ،جن کے نام اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ان میں دیا نرائن نگم کا ایک پرچہ ‘ زمانہ ‘ بھی ہے جو کانپور سے شائع ہوتا تھا ۔ اپنے نانا مرحوم کی طرف سے تحفہ میں دی گئی کتاب ‘خلد بریں ‘ اب تک سنبھال کے رکھی ہوئی ہے ۔ یہ مولانا عبدالحلیم شرر کا تاریخی ناول ہے، مولانا کی تمام کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی تھیں ۔ اُن کے تاریخی ناولوں نے مسلمان نوجوانوں کے جذبہ اسلامی کی پرورش اور تحریک خلافت کی اُٹھان میںبھرپور کردار ادا کیا ہے ۔
آج ہم ان ناولوں کا بھولے سے بھی ذکر نہیں کرتے ۔مولانا ابوالکلام آزاد کی بہت سی تخلیقات تو اُن کے نام کی طرح ابھی زندہ ہیں مگر ایک کتاب ‘ دعوت الحق ‘ کو لوگ نہ جانے کیوں بھول گئے ۔ ایک دانشور نے سو کتابوں کی فہرست بنائی اور کہا کہ ایک مسلمان ان کو پڑھ کر ہمہ صفت مسلمان بن سکتا ہے لیکن کوئی ان میں ایک کتاب پڑھنا چاہے تو اُسے مولانا کی ‘ دعوت الحق ‘ پڑھنی چاہیے ۔ قاضی عبدالغفار کی کتاب ” لیلی کے خطوط ” مَیں کئی بار پڑھ چکا ہوں، اب بھی جب نظر پڑتی ہے تو تین چار خطوط ضرور پڑھ لیتا ہوں ۔ ان کی دوسری کتاب ‘ مجنوں کی ڈائری ‘ بھی اپنے زمانے میں خوب پڑھی گئی مگر اب یہ دونوں دستیاب نہیں ۔ مولانا محمد حسین آزاد کی ” آب حیات ” اور مولانا حالی کی ”مسدس ” اپنے اپنے میدان میں لاجواب ہیں اور دونوں اب بھی پائی جاتی ہیں مگر عجائب خانہ اور لائبریری کی زینت بن گئیں ہیں ،جس کے قاری کم ہو چکے ہیں۔
ماضی میں ناشرین کا ایک زریں دور ایسا گزرا ہے کہ اُنہوں نے اردو زبان و ادب میں شہ پارے شائع کیے ہیں ۔ اردو طباعت اور اشاعت کی دنیا میں اپنی روایات کے بڑے بڑے نقش چھوڑے ۔ اُن کی شائع کردہ بہت سی کتابیں برسوں تک شہرہ آفاق رہیں ۔ نول کشور پریس کی چھپی ہوئی چند کتابوں حدیقہ الاولیا ، فسانہ عجائب ، مثنوی مولوی معنوی اور آثار الصنادید کو دیکھ کر اب یہی کہتا ہوں کہ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے ، حالات کروٹیں بدل رہے ہیں لیکن اکثر ناشرین اور مصنفین نئی نسل کو تعمیری اور اخلاقی کتابیں فراہم کرنے سے معذور نظر آتے ہیں ۔ اب تو ایسی کتابیں
شائع ہو رہی ہیں جو منظر عام پر آتے ہی مرحوم ہو جاتی ہیں ۔ ناشرین ، مصنفین اور بہت سے ادارے ان کی پذیرائی کا خوب اہتمام کرتے ہیں مگر یہ اُس مواد سے محروم ہوتی ہیں جو انہیں کچھ عرصہ تک زندہ رکھ سکے ۔ جب کسی قوم کا رحجان بالکل ہی مخالف سمت میں ہو تو ایسی حالت میں اس کے رحجان کو کسی سنجیدہ رخ کی طرف موڑنا دُشوار ہوتا ہے ، تاہم ایسی تاریکی میں قندیل جلانا وہ کوشش ہو سکتی ہے جس کے مثبت اثرات جلد یا بدیر ضرور رونما ہوں گے ۔ ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے جو اتنا علمی و ادبی سرمایہ جمع کیا، اگر نا شرین مزید مفید معلومات کے ساتھ اس ڈوبے ہوئے سرمایہ کو دوبارہ قارئین کے لیے فراہم کرنے کا عزم کریں تو یہ لوگ ایک بڑا کارنامہ انجام دیں گے ۔ اسی طرح فارسی ، عربی اور انگریزی زبانوں کی تمام تعمیری اور ماضی میں کھو جانے والی کتب کے تراجم شائع کیے جائیں تو نئی نسل پھر ایک بار اپنی کھوئی ہوئی دولت اور محرومی کو واپس پا سکتی ہے ۔ کتاب کی طباعت و اشاعت، اس کا ذخیرہ کرنا ، محفوظ رکھنا اور سب سے بڑھ کر استفادہ کرنا یقیناً کسی معاشرے میں صحت مندی کے اسباب پیدا کرنا ہے ۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار