بری سیاست

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں معاشی حالات سے نکلنے کے لئے سیاسی ہم آہنگی اور اعتماد کی ضرورت ہے اس سے بھی بڑھ کر خیبر پختونخوا جس طرح دھماکوں اور امن و امان کی صورتحال کے چیلنج سے نبرد آزما ہے تحریک انصاف کے رہنما انتخابات کے علاوہ ایک جملہ بھی کہنے سے کترا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب گورنر صوبے میں وفاق کی نمائندگی کی ذمہ داری تک محدود ہونے کی بجائے گورنر ہائوس کو سیاسی اکھاڑے میںتبدیل کردیا ہے یوں حکومت اور حزب اختلاف دونوں مفاد پر ستی اور غفلت کے ارتکاب کے مرتکب ٹھہرائے جا سکتے ہیں یہ سارا عمل عوام کے سامنے ان کا چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہونا چاہئے کہ ان کے غمخواروں کی ترجیح اول کیا ہے ۔امن و امان کی صورتحال بارے دوسری رائے نہیں لیکن اسے کسی خاص مقصد کے لئے استعمال میں لانا بھی مناسب نہیں اس حوالے سے بات چیت اور لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورضرورت ہے سیاست کی گنجائش نہیں۔باور کیا جاتاہے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات 90روزمیں نہ ہونے کے بعد ذمہ داران کیخلاف کارروائی کرنے سے متعلق آئین خاموش ہونے سے حکومت کو الیکشن میں تاخیر کرنے کا نیا حربہ مل گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140Aکے مطابق ہر صوبے میں بلدیاتی نظام ہونا لازمی ہے تاہم خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے دو سال چار ماہ تک بلدیاتی نظام نہیں رکھا تھا اور الیکشن کمیشن کی بار بار درخواستوں کے باوجود صوبائی حکومت نے انتخابات نہیں کرائے اور جب کرائے بھی گئے تو وہ انتخابات الیکشن کمیشن ، پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کرائے۔ماضی میں تحریک انصاف کے اپنے اختیار کردہ حربے آج ان کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہے تحریک انصاف کی حکومت یہ نظیر قائم نہ کر تی تو آج ان کا مقدمہ مضبوط ہوتا لگتا یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات بھی عدالتی احکامات کے بعد ہی ہوں گے اور محولہ نظیر کی طرح آئندہ کے لئے ایک اور نظیر قائم ہوگی۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت