آئینے بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں

دو صوبائی اسمبیلوں کی تحلیل کے بعد ضمنی انتخابات پر بیان بازی ہو رہی ہے۔ اور سابق حکمران جماعت کی جانب سے جہاں جلد از جلد دونوں صوبوں میں ضمنی انتخابات کرانے پر زور دیا جارہا ہے وہاں دونوں صوبوں کے گورنر صاحبان کی جانب سے ضمنی انتخابات کیلئے تاریخ کا تعین کرنے کے معاملے پر مبینہ لیت و لعل سے کام لینے اور الیکشن کمیشن کو موجودہ سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر تمام سٹیک ہولڈرز کو بلا کر ان سے صلاح مشورہ کر کے لائحہ عمل اختیار کرنے کے حوالے سے خطوط لکھنے پر تحریک انصاف کے رہنمائوں کے اعتراضات یقیناً قابل غور ہیں، تاہم آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے اور ماضی میں اس ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات کیاکہتے ہیں اس پر آئینی اور قانونی حلقوں سے بھی ضرور مشورہ لیا جائے، کیونکہ ایک مثال کی جانب بعض رہنما توجہ دلاتے ہوئے ضمنی انتخابات کے التواء کو غلط قرار نہیں دے رہے، یعنی جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو تب ملک کے اندر انتخابات کو آگے کر دیا گیا تھا، حالانکہ یہ ایک ایمرجنسی کی صورتحال تھی، مگر موجودہ اقتصادی اور معاشی صورتحال بھی کم توجہ طلب نہیں ہیں، ملکی معیشت جس نازک صورتحال سے دو چار ہے آئی ایم ایف کی شرائط میں روز بروز سختی شامل ہوتی جا رہی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر آ گئے ہیں اور(خدانخواستہ) ملک کے ڈیفالٹ کرنے کے انڈیکیٹرز خطرے کے نشان کو چھو نہیں رہے بلکہ تقریباً چھو چکے ہیں، ایسے میں ملک کو بچانا زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، بہرحال دونوں صوبوں کے گورنر صاحبان کے موقف پر ماہرین آئین و قانون کیا کہتے ہیں اور عدلیہ کیا فیصلہ کرتی ہے اس سب سے قطع نظر سابق حکمران حکومت کے ساتھ تعلق رکھنے والے صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق گورنر شاہ فرمان کے گزشتہ روز کی اس پریس کانفرنس پر اظہار حیرت ہی کیا جا سکتا ہے جو بقول شخصے دیگر پارٹی رہنمائوں کے ساتھ مشترکہ طور پر موجودہ گورنر حاجی غلام علی کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کے حوالے سے انہوں نے بلوائی تھی اور جس میں انہوں نے گورنر حاجی غلام علی کے محولہ خط پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے اقدام کو آئین اور حلف کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یوں دراصل سابق حکمران جماعت نے موجودہ گورنر کے مقابلے میں سابقہ گورنر کو سیاسی میدان میں اتار کر اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش ضرور کی، تاہم سابق گورنر شاہ فرمان اگر اپنے تمام دور گورنری کے ساتھ ساتھ موجودہ رویے پر بھی توجہ دیتے تو انہیں موجودہ گورنر کی” غیر آئینی اور اپنے حلف کی خلاف ورزی” کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کا موقع مل جاتا
کیا پوچھتے ہو حال مرے کاروبار کا
آئینے بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
صرف ایک سابق گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان پر ہی کیا موقوف، صدر عارف علوی سے لے کر تحریک انصاف کے ان تمام لوگوں نے جن کے پاس آئینی عہدے ہیں یا تھے، جس طرح آئین کی دھجیاں اڑائیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے نہ اتنی پرانی کہ لوگوں کے حافظوں سے محو ہو جائیں، آئین کا تقاضا کیا ہے؟ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں آئینی عہدوں پر رہ کر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا آئین کا ہی تقاضا تھا مگر انہوں نے اپنی جماعت کے ساتھ وابستگی کو ہی ترجیح دی اور ہر وہ اقدام اٹھایا جو آئین کی روح کے منافی تھا۔ اب بھی دیکھ لیجئے، بطور سابق گورنر شاہ فرمان کو دو سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے مگر انہوں نے پارٹی رہنمائوں کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کر ڈالی، اور مزے کی بات یہ ہے کہ آئینی تقاضوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انہوں نے موجودہ گورنر کے اقدام( الیکشن کمیشن کو خط لکھنے کو آئین کی خلاف ورزی اور اپنے حلف کے منافی قرار دیا، اصولی طور پر ان کے بیان سے ہم متفق ہیں مگر خود انہوں نے جو کچھ کیا اس پر تو یہی کہاجا سکتا ہے کہ
چہ دلاوراست دزدے کہ بکف چراغ داری
اس لئے ان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غورکریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے موقف سے روگردانی کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے، یاد رہے کہ ہم نے چند روز پہلے اپنے کالم میں پی ڈی ایم رہنمائوں سے یہی گزارش کی تھی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے میدان تحریک انصاف کیلئے کھلا نہ چھوڑیں جہاں بقول شخصے گلیاں ہون سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے، اور خاص طور پر قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر صرف عمران خان ہی اکیلا امیدوار ہو، اگرچہ عمران خان کی تمام خالی نشستوں پر جیتنے کی صورت میں بھی اسمبلی کی پوزیشن پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں تھا یعنی وہ صرف ایک ہی نشست رکھ سکتے ہیں اور ملک ایک بار پھر ضمنی الیکشن کے مسئلے سے دوچار ہوتا، مگر عالمی سطح پر ان حقائق کا ادراک نہ کر سکتے ہوئے عالمی برادری کے اندر عمران خان کی ” سیاسی پوزیشن ” کے حوالے سے بالکل غلط تاثر پھیل سکتا تھا یعنی موجودہ اتحادی جماعتوں کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کامیاب ہو سکتا تھا، اس لئے یہ تو پیپلز پارٹی نے اچھا کیا کہ ضمنی انتخابات میں میدان کھلا نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات سے عمران خان نے بھی اپنا موقف تبدیل کر کے ان نشستوں پر سابقہ ممبران کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی ہے اور جس نشست پر انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے وہ بھی واپس لے لئے ہیں، حالانکہ اس کا کارن یہ نہیں جسکے بارے میں بتایا جا رہا ہے بلکہ مبینہ طور پر وہ خوف ہے جو ان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کے حوالے سے ان پر لگائے جانے والے
الزامات ہیں جن کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ وہ کسی عوامی عہدے پر براجمان نہیں ہیں اس لیے ان کے ذاتی مسئلے کے حوالے سے ان سے کوئی استفسار نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لیں گے تو انہیں اپنی اولاد کے حوالے سے ڈکلریشن دیتے ہوئے اپنی مبینہ بیٹی کے بارے میں بھی کاغذات نامزدگی میں اندراج کرنا پڑے گا، چونکہ اس حوالے سے عدالتوں کو مکمل دستاویزی ثبوت فراہم کئے جا چکے ہیں اس لئے وہ انکار کی صور ت میں قانونی گرفت میں آ سکتے ہیں، اس لئے انہوں نے بہتر یہی سمجھا کہ وہ ضمنی انتخابات سے لاتعلق ہو کر اپنے پارٹی ممبران کو ہی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دیں، تاہم اب یہ آئینی اور قانونی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ جن نشستوں پر وہ پہلے ہی کامیاب ہو چکے ہیں، ان کے کاغذات نامزدگی میں بھی انہوں نے معلومات ادھوری دی ہیں تو ان کو اس حوالے سے کن قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ ان کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے والے نے تو2018ء کے انتخابات کے حوالے سے ان پر اعتراضات اٹھائے ہیں، بہرحال جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد میاں نواز شریف انتخابات کے بائیکاٹ پر مصر تھے مگر یہ آصف زرداری ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کو آمادہ کیا کہ انتخابات میں حصہ لے کر ہی جمہوریت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، اب بھی پی ڈی ایم کی دوسری جماعتوں کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے پر توجہ دینی چاہئے اور ضمنی انتخابات میں ضرور حصہ لینا چاہئے بشرطیکہ دو صوبوں کے گورنر صاحبان کے خطوط کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے آ جائے اور الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ضمنی انتخابات کے انعقاد کیلئے عملی اقدام اٹھائے، بقول ادا جعفری
جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھائوں میں وہ لوگ جلے ہیں
اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردش دوراں سے بڑی چال چلے ہیں

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن