بے حسی کی انتہا

عوام کو سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نہ صرف پیسکو بلکہ سوئی گیس کے حکام بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ( جسے ادارے لوڈ مینجمنٹ کا نام دیتے ہیں) کے حوالے سے عوام کو مشکلات میں مبتلا کرتے ہوئے انہیں پیشگی اطلاع دینے کی زحمت تک نہیں کرتے بلکہ بعدمیں بھی کوئی وضاحت دینے کے خود کو اخلاقی طور پر پابند سمجھتے ہیں۔ پیسکو والے تو پھر اتنی مہربانی کر لیتے ہیں کہ جہاں تاریں تبدیل کرنی ہوں یا مرمت کا کام کرنا ہو تو ان علاقوں کے بارے میں چھوٹی سی خبر جاری کر دیتے ہیں تاہم گزشتہ کئی مہینوں سے اتنی زحمت کے باوجود ان علاقوں کے بارے میں کوئی ایک سطری خبر بھی سامنے نہیں آتی جہاں سارا دن بلا وجہ بجلی غائب رہتی ہے، اس ضمن میں گزشتہ کئی ہفتوںسے جو اطلاعات جاری کی جاتی ہیں ان میں گل بہار اور ملحقہ علاقوں میں تاروں کی تبدیلی یا مرمت کے حوالے سے بجلی بندش کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا مگر ہر صبح بلاناغہ نو یا دس بجے اور کبھی کبھی صبح آٹھ بجے ہی برقی رو منقطع کر کے دن تین بجے تک بجلی بند کی جاتی ہے جس سے نہ صرف روز مرہ کے کاموں میں حرج ہوتا ہے بلکہ پانی بھی ناپید ہو جاتا ہے، اسی طرح سوئی گیس کی عدم فراہمی شیڈول کے مطابق فجر سے صبح نو بجے کے بعد گیارہ بجے دن بحال کر کے دوپہر دو بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے بحال کر کے رات9بجے پھر گیس بند کر دی جاتی ہے اور پھر ساری رات یہ سلسلہ منقطع رہتا ہے جبکہ گزشتہ روز( بروز ہفتہ) صبح سے گیس مکمل بند کر کے رات سات بجے کے بعد بہ مشکل کم پریشر کے ساتھ بحال کی گئی، یوں جو عمومی گیس فراہمی تھی وہ بھیمشکل ہو گئی تھی، عوام اس دوران ٹی وی نشریات دیکھتے رہے کہ اس غیر اعلانیہ گیس بندش کی کوئی وجہ خبروں کے ذریعے معلوم ہو سکے مگر ڈھٹائی کی انتہائوں کو چھو لینے والے سوئی گیس کے ادارے کے ذمہ داروں نے اتنا بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ عوام کو مشکل صورتحال سے دوچار کر نے کی کیا وجوہات تھیں، اب اس حوالے سے حکومتی حلقوں سے کیا گلہ کیا جائے اور کیا توقع رکھی جائے کہ وہ ان اداروں کے کرتا دھرتا حکام کو راہ راست پر لائیں گے، اس لئے کہ موجودہ نگران کابینہ سے پہلے تحریک انصاف حکومت کے وزیر اعلیٰ اور حالیہ دنوں میں گورنر خیبر پختونخوا کو بھی ان اداروں کے حکام نے لالی پاپ دیکر جس طرح ٹرخانے کی کوشش کی ہے وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو یا پھر گیس بندش کم از کم عوام کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ انہیں اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے، ظاہر ہے عوام ان کے خلاف کیا کر سکتے ہیں ماسوائے اپنی بے بسی اور محولہ اداروں کی بے حسی کا ماتم کرنے کے، اس لیے اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ادارے اپنی” ناکردنیوں ” کی کچھ تو وضاحت دیں، یہ سوچ کر کہ عوام اس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ ان اداروں کے ہاتھوں میں عوام کی حیثیت مردہ بدست زندہ کے سوا ہے بھی کیا۔

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت