سرکاری وسائل کا ضیاع؟

شدید مالی بحران کے باوجود صوبے کے بعض اہم حکومتی اداروں میں سرکاری گاڑیوں کی بندربانٹ کا سلسلہ جاری ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق غیر قانونی طور پر کئی گاڑیاں 11سے 17سکیل تک کے ملازمین کوالاٹ کی گئی ہیں جبکہ ان کے اخراجات کے سرکاری فنڈز سے وصول کئے جارہے ہیں اس بارے میں دستیاب معلومات کے مطابق غیر متعلقہ افراد کوبھی گاڑیاں فراہم کرنے کی شکایات ہیں مستزاد یہ کہ خبر کے مطابق ان میں سے بیشتر گاڑیوں کو بطور ٹیکسی استعمال کیا جارہا ہے ‘ ہیلتھ سیکرٹریٹ کے ذرائع کے مطابق سرکاری قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے غیر متعلقہ افراد کوبھی پراجیکٹ کی گاڑیاں دی گئی ہیں جبکہ محکمہ صحت میں بعض ملازمین کو ایک سے زائد گاڑیاں الاٹ کی گئی ہیں ‘ ڈائریکٹریٹ کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر یہ انکشاف بھی کیا کہ غیر قانونی الاٹمنٹ کے ساتھ درجنوں گاڑیوں کاریکارڈ بھی موجود نہیں اور جوگاڑیاں قبائلی ا ضلاع کے انضمام کے بعد ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کوحوالہ کرنا تھیں ان گاڑیوں کو ریکارڈ سمیت غائب کردیا گیا ہے ادھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے سرکاری محکموں کا بجٹ مزید کروڑوں روپے بڑھ گیا ہے جس کے لئے اضافی اخراجات میں تشویشناک شرح کے ساتھ اضافہ ہوگیا ہے جبکہ خدمات فراہم کرنے والے محکموں کو تیل کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے ‘ اس سلسلے میں پولیس ‘ ضلعی انتظامیہ’ صفائی اور پانی کی فراہمی کے اداروں ‘ ریسکیو 1122 اورمحکمہ صحت سمیت خدمات دینے والے سرکاری محکموں کے لئے تیل کی مد میں مختص بجٹ کم پڑ گیا ہے ‘ امر واقعہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کے ساتھ معاہدے میں تاخیر اورحالیہ مہنگائی میں اضافے کے بعد نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی حکومت وں کے ملازمین سے اضافی مراعات واپس لئے جانے کے مطالبات سوشل میڈیا پر سامنے آرہے ہیں اوربعض اداروں کے اہم عہدیداروں سے شاہانہ اخراجات بند کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں ‘ صوبہ خیبر پختونخوا کی مالی حالت پہلے ہی دگر گوں ہے ‘ ایسے یمں سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال پر خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے ‘ اور جس سرکاری گاڑیوں کی غیر قانونی بندر بانٹ ‘ غیر متعلقہ افراد میں ان کی تقسیم اور ان گاڑیوں کے لئے سرکاری وسائل سے تیل کی فراہمی کی خبریں آرہی ہیں ‘ یہ اس قوم کے ساتھ سنگین مذاق اور متعلقہ حکام کی سنگدلی کے مترادف ہے ‘ ملکی معیشت پہلے ہی خطرات میں گھری ہوئی ہے اس پرسرکاری گاڑیوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ دادا جی کی فاتحہ اورحلوائی کی دکان کے مترادف ہے ‘ اس حوالے سے متعلقہ انسداد رشوت ستانی قسم کے محکمے کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ نیب کہاں ہے جوتحقیقات کرکے قانون کیساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے ‘ صرف سیاسی رہنمائوں کے خلاف تادیبی اقدامات سے کام نہیں چلے گا بلکہ سرکاری اداروں میں خورد برد میں ملوث بدعنوانوں کوبھی قانون کے شکنجے میں لا کر عبرت کانشان بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار