انتخابات کے لئے پرامن ماحول

نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے تمام مکتبہ ہائے فکر کے مذہبی رہنمائوں اور علماء کرام سے خصوصی اپیل کی ہے کہ وہ صوبے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور اس سلسلے میں عوام الناس کی رہنمائی کے لئے اپنا اہم کردار ادا کریں جو اس وقت نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کی اشد ضرورت ہے ۔ اپنے ایک بیان میں نگران وزیر اعلیٰ نے گزشتہ روزپشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے سلسلے میں علمائے کرام اور مذہبی رہنمائوں کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت ان کے اس مثبت کردار کوقدرتی کی نگاہ سے دیکھتی ہے ‘ ا نہوں نے کہا کہ صوبے کی موجودہ صورتحال اور عام انتخابات کے پرامن انعقاد کے تناظر میں ایک پرامن ماحول کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے ‘ اس صورتحال میں ہم کسی بھی فرقہ ورانہ مسائل کے متحمل نہیں ہو سکتے ‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکتبہ ہائے فکر کے علمائے کرام ‘ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور ایسے ناخوشگوار صورحال پیش آنے کی صورت میں لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ایسے معاملات کو قانون کے مطابق حل کیا جا سکے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ امن و امان کے حوالے سے صرف فرقہ ورانہ ہم آہنگی ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دیگر عوامل پر بھی سنجیدہ توجہ دینا لازمی ہے جن میں خصوصاً دہشت گردانہ واقعات کی روک تھام بھی شامل ہے اس وقت صوبے کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی اہلکاروں پر جس طرح جان لیوا حملے کئے جارہے ہیں ان کی وجہ سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ‘ایسی صورتحال میں ضمنی انتخابات کے انعقاد پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں اور جب تک انتخابی ماحول کو پرامن بنانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوںگی تب تک انتخابات کاانعقاد شکوک و شبہات کی زد میں رہے گا’ویسے بھی گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے صوبے میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو خط لکھا جا چکا ہے اور بال اب الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے ‘ تاہم صوبائی حکومت اس ضمنی ایک فریق کی حیثیت ضرور رکھتا ہے کہ انتخابات کے لئے پرامن ماحول تیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے ‘ ایسے میں صوبے میں کہیں بھی کسی بھی ادارے میں زیر تعلیم طلبہ کے اندر اگر فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا فقدان رہے گا تو سماج دشمن عناصر ان حالات سے بھر پور فائدہ اٹھا کر امن وامان کے لئے چیلنجز پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ‘ جبکہ ایک سیاسی جماعت بھی ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی جن کوششوں میں مبینہ طور پر ملوث دکھائی دے رہی ہے ان سے بھی پرامن انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں ‘ اس لئے یہ نہ صرف حکومت بلکہ عوام کے مختلف طبقوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد و ا تفاق پیدا کریں تاکہ ضمنی انتخابا ت کے مراحل پرامن طور پر حل ہو سکیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟