پرویز مشرف، تاریخ کا ایک متنازعہ کردار

سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اکیاسی سال کی عمر میں دارِفانی سے کُوچ کر گئے یوں پاکستان کی منقسم اور متنازعہ تاریخ کا ایک اور باب بند ہوگیا ۔جنرل پرویز مشرف کے والدین دہلی سے پاکستان ہجرت کرکے آئے تھے اور ان کی پیدائش دہلی کی نہر والی حویلی میں ہوئی تھی ۔کراچی کے ایک مڈل کلاس گھرانے میں زندگی گزار نے والے پرویزمشرف کچھ عرصہ ترکی میں بھی رہے جہاں ان کے والد مشرف الدین سفارت خانے میں تعینات تھے ۔پرویز مشرف فوج میں مختلف منازل طے کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کی عہدے تک پہنچے ۔اس عہدے پر ان کا اس وقت کے وزیر اعظم میاں نوازشریف سے اختلافات پید ا ہوئے جو کارگل کی جنگ کے بعد بڑھتے بڑھتے سول ملٹری کشمکش کی صورت اختیار کر گئے ۔معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ بارہ اکتوبر1999کو جنرل پرویزمشرف کو اقتدار پر قبضہ کرنا پڑا ۔وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے کچھ ہی عرصہ بعد صدر رفیق تارڑ سے استعفیٰ لے کر وہ ملک کے صدر بن گئے۔جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کا ہنگامہ خیزدور اس وقت شروع ہوا جب نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور مغضوب الغضب امریکہ نے حملوں کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا ۔امریکہ نے طالبان حکومت کو گرانے اور افغانستان میں رجیم چینج کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف سے تعاون طلب کیا تو جنرل پرویز مشرف نے اس تعاون کا فیصلہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان اس جنگ کا اگلا مورچہ بن گیا ۔پاکستان نے اپنی ائر بیسز اور فضائی سپیس اور زمینی راستے اور کچھ آبادیاں امریکہ کے لئے وقف کردیں اور یوں امریکہ کی بندوق پوری طرح جنرل پرویز مشرف نے اپنے کندھے پر رکھ لی ۔پالیسی کی اس تبدیلی کے باعث طالبان جو کبھی پاکستان کا اثاثہ اور محبوب تھے بوجھ اور معتوب بن گئے ۔اس تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان ردعمل کی قوتوں کے نشانے پر آگیا اور پاکستان میں دہشت گردی کا خوفناک سلسلہ شروع ہوگیا ۔یہاں تک کہ امریکہ کے میگزین نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا ۔پاکستان کے ہر فوجی حکمران کی طرح جنرل مشرف کو اپنی سافٹ ڈکٹیٹر شپ یعنی نرم آمریت کے بطن سے جمہوریت جنم دینے کا خیال آیا اور یوں جمہوریت کی پنیری لگانے کی مشق کا آغاز ہو گیا ۔اس دوران ملک کی دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت کے ایجنڈے پر متفق ہوگئیں ۔یہ پوری ایک دہائی میں لڑنے بھڑنے والی جماعتوں کے اگلے سفر میں اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنے کامعاہدہ تھا ۔اس دوران امریکہ نے جنرل مشرف پر دبائو بڑھانا شروع کیا وہ مسلم لیگ ق جیسی مصنوعی جماعت کی بجائے کسی بڑی جماعت کے ساتھ شراکت اقتدار کریں ۔اس دبائو کے نتیجے میں جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا اور یہی اونٹ کے خیمے میں سر دینے کے مترادف ثابت ہوا ۔ان مذاکرات کے نتیجے میں جنرل پرویز سیاسی جماعتوں کے خلاف نرم روی اختیار کرنے پر آمادہ ہوئے اور این آر او کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کے خلاف بدعنوانی کے کیسز ختم کردئیے گئے ۔یہ عمل پرویزمشرف کے اقتدار کی کمزوری کا نقطہ آغاز بنا جو آگے چل کر ان
کی اقتدار سے مکمل بے دخلی پر منتج ہوا ۔جب بے نظیر بھٹو واپس آئیں تو نوازشریف کے ضامنوں نے بھی مشرف پر زور دینا شروع کیا کہ وہ اب نواز شریف کو زیادہ دیر ملک سے باہر اور اپنے ہاں نہیں رکھ سکتے ۔چارونا چار پرویز مشرف کو یہ کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑا ۔جنرل مشرف کے کمزورہوتے ہوئے اقتدار میں ایمرجنسی کا نفاذ اور بے نظیر بھٹو کاقتل دوایسے واقعات تھے جو ان کے کشتی کے ڈوبنے کے عمل کو تیز کرنے کا باعث بنے ۔انتخابی نتائج نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے اقتدار کو کھوکھلا کر دیا اور اب ان کا جانا نوشتۂ دیوار بن کر رہ گیا۔ایک روز جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر حکومت بنائی تو انہوںنے جنرل مشرف کو مواخذے کی دھمکی دے کر اقتدار سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا ۔حکومت نے انہیں گارڈآف آنر پیش کرکے واپسی کا باعزت راستہ فراہم کیا اور یوں ان کا دس سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچا۔جنرل پرویز مشرف کا ایک اہم فیصلہ بھارت کے ساتھ امن عمل کا آغاز تھا جسے انہوںنے کشمیر سینٹرک رکھنے کی کوشش کی مگر بھارت نے کشمیر پر پاکستان کو کوئی ٹھوس رعایت دینا تھی نہ دی چار وناچار جنرل مشرف نے چارنکاتی فارمولہ پیش کر اسے آگے بڑھانا شروع کیا اس میں کنٹرول لائن کو نرم کر کے مستقل بنانے کی سوچ کارفرما تھی ۔بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ صاف لفظوں میں کہتے رہے کہ سرحدوں میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں جس کا مطلب تھا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن اپنی جگہ موجود رہے گی اور سری نگر پر بدستور بھارت کا کنٹرول رہے گا۔ان تضادات کی وجہ سے ان کا چار نکاتی فارمولہ متنازعہ بن گیا۔پرویز مشرف کے اقتدار کے کمزور ہوتے ہی امریکہ کی مہربانیاں کم ہونا شروع ہوگئی تھیں۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی اقتدار کے تنازعات میں گھرنے اور کچھ بیرونی معاہدات کی بنا پر انہیں بوجھ سمجھنے لگی تھی۔اسلام آباد کا منظر بدلتے ہی امریکہ نے بھی ان سے آنکھیں پھیرنا شروع کی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جو اس سے پہلے ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کو بھی درپیش ہو ا تھا ۔جب امریکہ نے کام نکالنے کے بعد ان سے نظریں پھیر لی تھیں ۔جنرل مشرف بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنے لگے تھے یہاں تک ایک روز جب انہوںنے اقتدار سے بے دخل کئے جانے کی کوششوں کو کامیاب ہوتا دیکھ کر انہوںنے معاملے کے ضامن امریکہ کے صدر بارک اوباما کا ٹیلی فون ملایا تو اوباما نے فون سننے سے انکار کر دیا ۔جس سے جنرل پرویز مشرف کو دنیا کی بے ثباتی کا بخوبی اندازہ ہوا اور وہ بعد میں گلہ گزار نظر آتے رہے۔جنرل پرویز مشرف اقتدار کی وادیوں سے نکل جانے کے بعد بھی سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کے خواہش مند نظر آتے تھے جس کا ایک ثبوت آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کا قیام تھا اور انہیں یہ مغالطہ بھی رہا کہ وہ پاکستان کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں اور فیس بک فالورز کی تعداد ان کی مقبولیت کا ثبوت ہے ۔ان کا یہ بھرم بھی اس وقت قائم نہ رہ سکا جب وہ طمطراق کے ساتھ کراچی ائر پورٹ پر اُترے تو کروڑوں کے شہر میں ان کے استقبال کے لئے سیکڑوں لوگ بھی موجود نہیں تھے۔اس کے بعد سے عوامی مقبولیت کا ان کا مغالطہ دور ہوگیا اور ان کے دل میں ملکی معاملات میںمزید کوئی کردار ادا کرنے کی خواہش کی کلی بھی مرجھا گئی ۔ملک کے اندر غداری اور آئین شکنی کے مقدمات اور پھانسی دئیے جانے اور لاش کو چوک پر لٹکانے جیسے فیصلے ان کا انتظار کرتے رہے مگر وہ عارضوں میں گھرتے چلے گئے ۔اور بالاخر خالق حقیقی سے جا ملے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا