یکے بعد دیگرے

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے کہا ہے کہ الیکشن آئین کے مطابق ہوں گے اتفاق رائے سے نہیں،اگراب الیکشن90روز سے آگے گیا تو پھر کوئی وقت پر الیکشن نہیں چاہے گا(ن) لیگ چاہتی ہے کہ عمران خان پہلے گرفتارہوں’ نوازشریف کی سزائیں ختم ہوں’ پھر اتفاق رائے کیسے ہوسکتا ہے انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے عدالت کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھا کہ الیکشن90روز کے اندر ہونے ہیں جب اسمبلی ٹوٹے گی تو آرٹیکل224کے تحت الیکشن90روز میں ہونے ہیںعدالت میں بحث اس نقطے پر ہوئی کہ الیکشن کمیشن’ صدر یا گورنر کس نے اعلان کرنا ہے تاکہ الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرسکے۔انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے حالات کا رخ کیا سامنے آتا ہے اس سے قطع نظر سیاسی حوالے سے پی ٹی آئی کے ترجمان نے جو بات کی ہے اسے سیاسی بدگمانی اور الزام کی مدمیں اس لئے شمار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں اس طرح کی سوچ اور اس طرح کے اقدامات کوئی نئی بات نہیں بس افسوس اس بات کا ہے کہ جب مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کے خلاف محاذ آرائی شروع ہوئی تو تحریک انصاف منتظر تھی کہ ان کو راستے سے ہٹانے کے بعد ان کے لئے راستہ صاف ہو جائے گا اور اب مسلم لیگ نون عمران خان کو ہٹا کر راستہ صاف ہونے کی منتظر ہے ایسے میں کل حکومت لینے والے بھی کٹھ پتلی ٹھہرائے گئے تو عوام کی اکثریت کی بجائے حالات کو ساز گار بنا کر اقتدار کا خواب دیکھنے والوں کا شمار بھی اصولی طور پر کٹھ پتلیوں میں ہونا چاہئے ملک میں اس طرح کٹھ پتلیوںکی حکومتوں کا بننا ہی سویلین بالادستی نہ ہونے وزیر اعظم کے بے اختیار ہونے اور حکمران ہوکر بھی ماتحت کا کردار ادا کرنے کا گھن چکر چلتا ہے جس کے لئے کسی مخصوص سیاسی جماعت اور افراد کو الزام نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ عوامی حمایت اور اکثریت کے حصول کی بجائے ڈیل اور راہ ہموار کرنے والوں کی مدد سے اقتدار کے خواہاں ہوتے ہیں اور پھر ان کو بھگتنا بھی پڑتا ہے ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا جب عطار کے لڑکے سے دوا لینے کی غلطی کو غلطی گردان کر اس سے احتراز کیاجائے گا۔

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت