کیا درست کیا نا درست

پنجا ب اور خیبر پختون خوا صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کے بارے میں ملک کی سب سے بڑی عدلیہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ تین دو کی اکثریت ہے ۔ جب ازخود نو ٹس کے تحت یہ سما عت شروع ہوئی تب سے اس بارے میں مختلف انو اع کے تبصرے عدلیہ کی چار دیو اری سے آنا شروع ہوئے تھے چنا نچہ عدالتی معاملات پر رائے زنی یا تبصرہ یا رائے زنی ماہرین ہی کر سکتے ہیں ، ماہرین کی جانب سے رائے زنی شروع بھی ہے ملک کے ممتاز بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے بیا ن میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کرنا پڑے گا ،90روز میں الیکشن ہونا ہی تھے ، 90دن میںالیکشن نہیں ہوئے تو پنجا ب حکومت ختم ہو جائے گی ، نگران حکومت غٰیر قانونی ہوجائے گی اور یہ بہروپیے بن جائیں گے ، بیرسٹر اعتزازاحسن نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اکثریت کا فیصلہ درست اور خوش آئند ہے ، الیکشن کمیشن اس معاملے میں بنیا دی فیکٹر ہے الیکشن کمیشن نے مشاورت بھی کر نا ہے سپریم کو رٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنا پڑ ے گا ، اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ 90رو ز میں انتخابات نہیں ہوئے تو پنجا ب حکومت ختم ہوجائے گی ،نگران حکومت غیر قانو نی ہوجائے گی اور بہروپئے بن جائیں گے ،ادھر وفاقی وزیر قانو ن نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے انتخا بات کے حوالے سے ازخود نو ٹس کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں ، نہ ہی تشریح طلب معاملہ ہے گویا حکومت نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو من وعن قبو ل کر لیا ہے کیو ں کہ وفاقی وزیر قانو ن کا مئو قف ہے کہ فیصلے پر نظر ثانی اور اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ انھو ں نے اسلام آباد میں ذرائع ابلا غ عامہ کے نمائندوں سے گفتگو کر تے ہوئے کہ ان کے مطابق یہ پٹیشن تین کے مقابلے میں چار سے مسترد ہوگئی ہے ، فاضل جج صاحبان نے فیصلہ دیا ہے کہ ہائی کو رٹس فیصلہ کریں ، اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ دوججز نے واضح کہا ہے کہ جسٹس یحیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کرتے ہیں ، دوججز نے کہا ہے کہ یہ دو درخواستیں مسترد کی جا تی ہیں یہ درخواستیں چار تین کے تنا سب سے مستر د ہوگئی ہیں دوججز نے خود کیس سننے معذرت کی ۔
وفاقی وزیر قانو ن کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے دو ججز کے نو ٹ کو فیصلہ جا ن کر ان کو بینچ میں شامل نہیں کیا ۔ سماعت کے دوران پانچ رکنی بینچ کے تین ججز نے زمینی حقائق دیکھ کر 9اپریل سے آگے لے جا نے پر مشاورت کا کہا دونو ں ہائی کو رٹس میں درخواستیں ابھی تک زیر سماعت ہیں فیصلے کی تشریح وہا ں بھی ہو سکتی ہے ، جو آئینی اور قانونی بات ہے وہی ہونی چاہیے ، نذیر تارڑ نے کا کہنا ہے کہ جو آئینی اور قانو نی بات ہے وہی بات ہونی چاہیے ان کے بقول صدر مملکت نے ایک فیصلہ تھو پ کر واپس لیا ۔ ادھر اٹارنی جنرل پاکستان عطاالہی کا کہنا ہے کہ یہ سات میں سے تین ججز کا فیصلہ ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت بھی چاہتی ہے کہ الیکشن ہوں مگر اس سے پہلے آئینی اور قانو نی ابہا م کو ختم کرنا ہو گا ۔ جن ماہرین قانون کی رائے یہ ہے کہ یہ فیصلہ تین کے مقابلے میں چار کی اکثریت کا فیصلہ ہے اس بارے میں وہ کئی دلیل دے رہے ہیں اس سلسلے میں پاناما کیس کی بھی دلیل دی جارہی ہے کہ جب عدالت کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما کیس کا فیصلہ سنا یا تو اس وقت بینچ کی جا نب سے ہی کہا گیا کہ اس میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے چنا نچہ اس کے بعد پانچ رکنی بینچ میں سے تین ججز پر مشتمل نیا بینچ تشکیل دیا گیا اور پھر جی آئی ٹی قائم کی گئی بعد ازاں جی آئی ٹی کی رپورٹ مکمل ہو نے کے بعد جب اس کی روشنی میںفیصلہ سنا یا گیا تو اس وقت جن دو ججز کو تین رکنی بینچ میںشامل نہیں کیا گیا تھا ان کو بھی شامل کرلیا گیا ، چنا نچہ بعض رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ ازخود نو ٹس کے لیے نو رکنی بینچ قائم کیا گیا تھا ، پہلی سماعت جو 23فروری کو ہوئی تھی اس وقت دوججز نے اس بارے میں ازخود نوٹس کو نا قابل سماعت قرار دیا تھا ، بعد ازاں جب گزشتہ روز سماعت ہوئی تو نو ججز کے بینچ میں سے دوججز معزز جج مظاہر علی نقوی اور معزز جج اعجا زالا حسن کو بینچ سے الگ ہوگئے کیو ں کہ ان کے بارے میں اعتراضات آئے تھے محترم چیف جسٹس نے سما عت کے وقت بتایا کہ اب اس کیس کی سماعت پانچ رکنی بینچ کر ے گا چنا نچہ دومعزز ججز کے الگ ہو جا نے کے بعد دومعزز ججز جسٹس یحیٰ آفرید ی اور جسٹس منصور علی شاہ کو شامل نہیں کیا ، ماہرین کا کہناہے کہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنا مختصر فیصلہ دیدیا تھا اور کہا تھا کہ وہ تفصیلی فیصلہ بعد میں دیں گے ، جس فیصلہ کا اعلان ہو ا ہے اس میں تین ججز کے فیصلے سے دو ججز نے اختلا ف کر تے ہوئے بینچ کے ان دوججز کے فیصلو ں سے اتفاق کیا جن کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا ، یہ سب قانو نی معاملات ہیں کہ اصل پوزیشن کیا ہے ۔ جو چا ر کی اکثریت کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ ابھی معز ز جسٹس یحیٰ آفریدی کا تفصیلی فیصلہ آنا ہے ، ویسے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے جو فیصلہ سنایا ہے اس بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ مختصر فیصلہ ہے تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا گویا دو طر ف سے تفصیلی فیصلہ آنا ہے ، گویا یہ قانونی گتھیاں ہیں جس کو ماہر ین ہی سلجھا سکتے ہیں ۔ عوامی سطح پر ان پر تبصرہ یا رائے زنی درست نہیں ہے ، البتہ یہ ضرور ہو ا ہے کہ پی ٹی آئی کی نہ چل پانے والی جیل بھر و تحریک جو پارٹی کے سربراہ نے عدالتی فیصلہ آنے پر ختم کر دیا اور کا رکنوں سے کہا ہے کہ اب جیل بھر و تحریک کی ضرورت نہیں رہی ، عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں انتخابات کی تیار ی کریں ،فیصلہ کا اعلا ن ہوتے ہی تحریک انصاف کی صفوں میں خوشی کی لہر دو ڑ گئی اور سب نے کھلے ہا تھ مٹھائیاں بھی تقسیم کیں اور جی بھر کر ایک دوسرے کو مٹھائیا ں کھلائیں بھی چنا نچہ حکومت کے موقف سے تو یہ محسو س ہو تا ہے کہ انتخابات کے معاملے ہنو ز دلی دور است ۔ البتہ یہ امید واثق ہے کہ جلد ہی معاملہ کھل جائے گا ، اور جو ابہا م پائے جارہے ہیں یا پیدا کئے جا رہے ہیں وہ سب اپنی اپنی جگہ حل ہو جائیں گے ، ویسے بھی اکتوبر میں عام انتخابات ہو نا ہیں ، اگر پی ٹی آئی کے سربراہ کچھ ماہ صبر کرلیتے تو ایسی فضاء پید ا نہیں ہو تی اب وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ کن وجو ہ پر ان کی خواہش ہوئی کہ دو صوبوںکی اسمبلیاں تو ڑ دی جائیں انتخابات میںچند ماہ بعد تو جانا ہی تھا۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟