سعودی عرب نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئے ایٹمی پروگرام کی شرط رکھی،امریکی میڈیا

ویب ڈیسک :سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے بدلے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے دفاعی ضمانت مانگنے کے ساتھ ساتھ سویلین جوہری پروگرام بنانے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ امریکی ادارے نیویارک ٹائمز کے مطابق اگر یہ ڈیل ہو جاتی ہے تو جزیرہ نما عرب میں بہت بڑی پیشرفت ہو گی جبکہ یہ ایران کے خلاف اسرائیل کی سکیورٹی میں اضافے کی وزیراعظم نیتن یاہو کی دیرینہ خواہش کو بھی پورا کردے گی۔گزشتہ سال العریبیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے حل کا سبب بنے گا۔
رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر السعود نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بریٹ میک گرک اور اموس ہوشتن نے مذاکرات کی قیادت کی۔سعودی عہدیداروں نے اس سے قبل کہا تھا کہ جب تک فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی اس وقت تک وہ اسرائیل سے باضابطہ تعلقات بحال نہیں کریں گے البتہ کچھ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سمجھوتہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ایک سفارتکار نے بتایا کہ گزشتہ سال کے دوران سعودی عرب کا بائیڈن انتظامیہ سے سویلین جوہری پروگرام کا مطالبہ پیش پیش رہا ہے البتہ یہ ڈیل ہونا اب بھی کافی دور ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے تعلقات بحالی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے ابراہام معاہدے کا نام دیا گیا تھا۔ اسرائیل کے سابق ایلچی مارٹن انڈیک نے کہا کہ سویلین نیوکلیئر پروگرام کے لیے سعودی عرب کی درخواست امریکا کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے جوہری ہتھیاروں کا بڑے پیمانے پر پھیلائو ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے امریکا اور اسرائیل دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن کانگریس اس کی مزاحمت کر سکتی ہے۔مارٹن انڈیک نے کہا کہ سکیورٹی معاہدے کی شرائط کا تعین ہونا ابھی باقی ہے لیکن توقع ہے کہ وہ باہمی دفاعی ضمانت سے محروم ہو جائیں گے۔اس تجویز پر امریکا اور مشرق وسطیٰ کے حکام اور ماہرین کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے
کچھ لوگ صدر جو بائیڈن اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اس کے امکان پر سوال اٹھا رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس مجوزہ ڈیل سے علاقائی اتحاد مضبوط ہوں گے لیکن مسئلہ فلسطین کی اہمیت میں بھی کمی آئے گی۔سعودی رائے عامہ اس تجویز کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتی ہے، کیونکہ 76 فیصد سعودی ابرہام معاہدے کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی رہنما مشترکہ انٹیلی جنس اور اسپائی ویئر کے لیے اسرائیل کے ساتھ غیر سرکاری تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  سوات، بارات میں دو گاڑیوں کو حادثہ، 10 سے زائد افراد زخمی