ضم اضلاع کے محروم عوام

ضم اضلاع کے عوام اکثر و بیشتر اپنے مطالبات پر عدم توجہ اور محرومی کی شکایت دہراتے رہتے ہیں ان کا سب سے بڑا مطالبہ انضمام کے موقع پرکئے گئے وعدوں پر عملدرآمد ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ جو وعدے حکومت اور ریاست کی طرف سے کئے گئے تھے ان پر از خود عمل ہونا چاہئے نہ کہ جن سے وعدے کئے گئے تھے ان کو احتجاج اور مطالبات پرمجبور کیا جائے۔قبائل نے پاکستان سے وفاداری کا رشتہ ہمیشہ برقرار رکھاہے قبائل نے انضمام کے فیصلے کوبھی قبول کیا ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ایف سی آر کے کالے قانون سے ان کو نجات حاصل ہو جائے گی، لیکن ایف سی آر کے خاتمے کے باوجود ان کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا ان پر عمل نہیں ہوا۔ضم اضلاع میںجو اضطراب موجود ہے وہ ایک الگ مسئلہ ہے قبائل جدید دور میں بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں حالانکہ یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ضم اضلاع کے لئے وفاق کی جانب سے جو خصوصی و عمومی فنڈز گزشتہ دنوں دیئے گئے تھے معلوم نہیں اس کا کیا استعمال ہوا یا ہونے جارہا ہے ضم اضلاع سے ناانصافی روز اول سے برتی جارہی ہے اس کے ساتھ ساتھ انضمام کے بعد خیبر پختونخوا سے بھی برتی جارہی ہے کہ ان اضلاع کا این ایف سی ایوارڈ میں حصہ صوبے کو نہیں مل رہا ہے جس کے باعث ان اضلاع میں عوامی کام متاثر ہونا فطری امر ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بلوچستان اور ضم اضلاع کے عوامی حقوق کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے اور ان کی ا شک شوئی کا چرچا تو بہت ہوتا ہے مگر عملی طور پر ان کو محروم ہی رکھا جاتا ہے ضم اضلاع کے عوام جب تک متحدہ آواز بلند نہیں کرتے اور آئندہ انتخابات میں کوئی مشترکہ و موثر پلیٹ فارم سے اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے اور خود غرض افراد کی بجائے درد رکھنے والوں کو ایوان نہیں بھیجتے ان کی مشکلات میں کمی شاید ہی ہو۔توقع کی جانی چاہئے کہ حکمرانوں کو حکومت اور ریاست کے وعدے نہ صرف یاد ہوں گے بلکہ ضم اضلاع کے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی سعی بھی ہو رہی ہو گی اگر حکومت و ریاست خود اپنے عوام سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کرے گی تو پھر قبائلی اضلاع میں جو دیگر عناصر سرگرم عمل ہیں عوام کا ان کو نجات دہندہ گردان کر ان کی طرف متوجہ ہونا فطری امر ہوگا ۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت