اس نے کہا کہ کونسی خوشبو پسند ہے

یادش بخیر ، ساٹھ کی دہائی کا زمانہ یاد آگیا جب اس دور کے حوالے سے جی ٹی ایس یعنی تو گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی لگژری بسیں نہ صرف پشاور سے لاہورکے درمیان چلتی تھیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سہولیات سے آراستہ خوبصورت اور آرام دہ بسیں پشاور اور کابل کے درمیان سفر کرتی دیکھی جا سکتی تھیں۔ پشاور سے کابل کے درمیان چلنے والی ان خوبصورت بسوں کی ہر نشست آج کی اعلیٰ بسوں کوچز کی طرح پیچھے کی طرف اسی طرح جھک مزید آرام دہ ہوجاتی جس طرح طیاروں میں ہرنشست صرف ایک لیور دبانے سے تھوڑی سی پشت کی طرف جھک کر مسافروں کے لئے ضرورت کے تحت آنکھیں بند کرکے تھوڑی دیر ہی کے لئے سہی نیند پوری کرنے میں مدد گار بن جاتی ہیں۔ ان بسوں میں ایک مشہور مشروب کی بوتلیں ڈرائیور کے قریب آئس باکس میں رکھی ہوتیں جو حسب ضرورت قیمت ادا کر کے طلب کی جا سکتی تھیں۔ غرض اپنے دور کے حوالے سے پیشاور اور کابل کے درمیان چلنے والی ان بسوں کو آج کی ترقیافتہ کوچیز کی سی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ ہم نے بھی ایک بار پشاور تا کابل اور پھر واپسی کا سفر1968میں اختیار کیا تھا۔ ان دنوں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ہنرمندوں کو ایک ہی بار سفر کیلئے پاسپورٹ کی طرز پر ”ریڈ پاس”جاری کیا جاتا ، کچھ لوگ کسی سفارش سے یہ پاسپورٹ نما(ریڈ پاس)حاصل کرکے کابل یاترا پر چلے جاتے کیونکہ پاسپورٹ کا حصول خاصہ مشکل اور مہنگا عمل تھا۔ ہم ان دنوں پشاور صدر میں ایک ہوٹل میں بطور ریسپشنسٹ کام کرتے تھے اب وہ ہوٹل مرحوم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ ایک پلازہ تعمیر کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر موبائل فونز کا کاروبار ہوتا ہے، ہوٹل میں مسافروں خصوصاً غیر ملکی سیاحوں کے بارے میں معلومات کیلئے انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگ آیا کرتے تھے ، ان ہی میں ایک صاحب سے اچھی علیک سلیک کی وجہ سے ہمیں بھی یہ ریڈ پاس آسانی سے مل گیا تھا اور ہم اپنے چند دوستوں کے ساتھ کابل یا ترا پر جی ٹی ایس کی بس میں گئے تھے ‘ ان دنوں پاکستان سے عمومی طور پر لوگ زیادہ تر بھارتی فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے۔ کابل یا ترا کی مزید باتیں آگے چل کر کالم میں گنجائش کے تحت کی جا سکتی ہیں۔ تاہم اس دور کی بسوں کے بارے میں حافظے میں محفوظ باتیں اس لئے یاد آئیں کہ ایک خبر سامنے آئی ہے جس میں افغانستان کے لئے لگژری بس سروس شروع کرنے کے فیصلے کا ذکر ہے ۔ افغانستان کے ساتھ زمینی راستے پر سفر کے حوالے سے لگژری بس سروس کے اجراء کے تحت مسافروں اور سامان کی کسٹمز وامیگریشن کلیرنس کے لئے طورخم بارڈر پر انٹر نیشل بس ٹرمینل قائم کیا جائے گا، پاکستان کی وزارت مواصلات اور افغان وزارت مواصلات کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں اور بس سروس کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لئے بھی اصولی اتفاق ہو چکا ہے جس کے لئے دونوں ملکوں کی اپنی اپنی حدودمیں جلد انتظامات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ زمینی راستے سے سفر شروع کرنے کا فیصلہ دونوں ممالک کے درمیانی فضائی سفر میں دشواریوں کے باعث کیا گیا ہے۔ کیونکہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے ایئر فلائیٹس میں کئی طرح کی مشکلات درپیش رہی ہیں ، ابتداء میں پشاور تاجلال آباد لگژری بس سروس شروع کی جائے گی۔ اگرچہ جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں اس دور میں جی ٹی ایس کی لگژری کوچز پیشاور سے کابل تک آیا جایا کرتی تھیں، اور طورخم سے کلیرنس کے بعد افغانستان کی سرحد میں داخلے کے بعد وہاں بھی متعلقہ امیگریشن حکام کی جانب سے پاسپورٹوں اور ریڈ پاسوں پر ضروری اندراج اور ٹھپے لگوانے کے بعد پہلا پڑائو جلال آباد ہی ہوا کرتا تھا جہاں دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے تقریباً آدھا پونا گھنٹہ دیا جاتا ، ہوٹلوں میں کھانا عموماً ایک بڑی پلیٹ کا بلی پلائو دو چھوٹے برتنوں میں مختلف ترکاریوں اور عام سلاد پر مشتمل ہوتا۔ ساتھ میں روٹی ہوتی یہ جو آجکل پشاور کے بعض تندوروں پر لمبی روٹیاں حضوصاً افغان نان فروشوں کے ہاں مل جاتی ہیں۔ ان کا نظارہ پہلی بار ہم نے کابل یاترا کے دوران ہی دیکھا بلکہ وہاں بلا مبالغہ دو سوا دو فٹ کی لمبی روٹیاں تندوروں پر ملتی تھیں، اس کے بعد ایسی ہی لمبی تندوری روٹیاں کوئٹہ میں تعیناتی کے دوران خصوصاً ہزارگی (ہزارہ کمیونٹی) نانبائیوں کے ہاں دیکھنے کو ملتی تھیں، جلال آباد میں مختصرقیام کے بعد بسیںعازم کابل ہوجاتی تھیں یوں صبح نو بجے پشاور سے سفر کا آغاز کرنے کے بعد یہ بسیں5بجے کے لگ بھگ کا بل ٹرمینل میں جا کر رک جاتیں اور پھر مسافر اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے، جی ٹی ایس کا بل ٹرمینل پر مختلف ہوٹلوں کے نمائندے مسافروں کو اپنے اپنے ہوٹلوں میں قیام پر آمادہ کرتے ہم چونکہ اپنے ایک ساتھی کی وساطت سے پہلے ہی ان کے کسی واقف حال کے ہاں اور مدعو تھے اس لئے ٹیکسی لیکر کابل کے شعبہ بازار کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔ کابل کا شعبہ بازار بھی پشاور کے شعبہ بازار کی طرح ٹرانسپورٹ کے جملہ مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے مشہور تھا، ٹرکوں بسوں کی مرمت، ہارڈ ویئر کے سامان کی دکانیں اور کاریگر سب کچھ دستیاب تھا، بلکہ یہ واحد علاقہ تھا جہاں سارا سارا دن چائے کی دکانیں کھلی ہوتیں، حالانکہ باقی کے کابل شہر میں صرف صبح اور سہ پہر کے بعد ہی دودھ والی چائے ملتی تھی یعنی دیگر اوقات میں بغیر دودھ کے چائے سیاہ اور سلیمانی چائے ” کہتے ہیںاور قہوہ مل جاتا مگر دودھ والی چائے دستیاب نہ ہوتی اور ہم جیسے چائے کے رسیا یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ
اس نے کہا کہ کونسی خوشبو پسند ہے
ہم نے تمہاری چائے کا قصہ سنا دیا
کیونکہ بھلا بغیردودھ کے چائے کی خوشبو بھی کوئی خوشبو ہوتی ہے ممکن ہے جولوگ سیلمانی چائے پینا پسند کرتے ہیں ان کو اسی کی خوشبو بھاتی ہو ‘ مگر ہمارے ہاں تو اکثریت دودھ والی چائے ہی پیتے ہیں ‘ بلکہ پشاور میں تو چینکی والی دکانوں پر دودھ والا قہوہ بھی جسے مقامی طور پر”شین دہ پیئو” یعنی دودھ والی سبز چائے کہا جاتا ہے ‘ عام طور پر مل جاتا ہے اور بہت ہی رغبت سے پیا جاتا ہے ۔ اس وقت بھی جب ہم اہل قلم ہر منگل کوشام کے اوقات میں حلقہ ارباب ذوق کے ہفتہ وار اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں تو چائے اور قہوے کے ساتھ ساتھ”شین د پیئو” بھی منگوائی جاتی ہے ‘ اور ہر شخص اپنی اپنی پسند کے مطابق”چائے” پی کر لطف ا ندوز ہوتا ہے ۔ بہرحال کابل یاترا کے دوران ہم نے اور بھی بہت کچھ دیکھا لیکن ایک بات نے ہمیں حیرت میں مبتلا کردیا تھا کہ کسی بھی سینما میں عمومی طور پر تو بھارتی فلمیںچلتی تھیں لیکن آپ چاہیں تو ہال بک کرکے اپنی پسند کی فلم لگوا سکتے تھے ‘ اور اس دوران فلم کے شروع ہونے تک جتنی ٹکٹیں فروخت ہوجاتیں ان کی رقم آپ کو واپس کر دی جاتی کیونکہ ہال کے پیسے تو آپ پہلے ہی ادا کر چکے تھے ‘ بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ یہ لگژری بسیں کس حد تک دونوں ملکوں کے درمیان روابط استوار کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں کیونکہ
ہم ہیں کہ تعلق کو نبھانے میں لگے ہیں
کچھ لوگ مگر دل کودکھانے میں لگے ہیں

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت