ایران سعودی عرب تعلقات کا نیا موڑ

حالیہ دنوں میں سات سالہ عرصے کے بعد مسلم دنیا کی دو اہم ترین ریاستوں ,سعودیہ اور ایران– کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی نے عالمی دنیا میں چہ مگوئیاں شروع کر دی ہیں ۔ کوئی تعلقات کی ان بحالی کو دنیا کے نئے ورلڈ آرڈر کی شروعات قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے دنیا سے امریکہ اور اسرائیل کے تسلط کا خاتمہ گردان رہا ہے۔ چند امید فروزاں لوگوں کا دعوی ہیکہ یہ مسلم دنیا کے عروج اور خلافت کے قیام کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اس کے حوالے سے کیے جانے والے تمام تجزیے ہی درست معلوم ہوتے ہیں۔ یہ پیش قدمی حقیقتا، پوری دنیا کے لئے ایک سرپرائز کی طرح ثابت ہوئی ہے۔ سنی اور شیعہ فرقوں کو لیڈ کرنے والی ان ریاستوں کا ملاپ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس کے اثرات ہر خطے اور مسلم دنیا کی ہر ریاست پر واقع ہونے والے ہیں ۔ سفارتی تعلقات کی اس بحالی میں کوئی ایک پہلو پنہاں نہیں ہے بلکہ اس میں باہم پیوستہ بہت سے پہلو ہیں جوکہ ابھرتے ہوئے سپر پاور چائنا ،موجودہ سپر پاور امریکہ اور بائیڈن ایڈمنسٹریشن کے سعودیہ اور ایم بی ایس ( محمد بن سلمان) کے شخصی پہلو اور ایران کا اپنے خلاف پابندیوں اور علیحدگی سے نمٹنے کے گرد گھومتے ہیں ۔دراصل،امریکن صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی سعودیہ کو اپنے لئے وہ پہلے والی خاص نشست نہیں مل سکی جو اسے مسلم دنیا کی لیڈنگ ریاست کی حیثیت سے، امریکہ کی جانب سے ملتی آرہی تھی۔ا کتوبر-2022 میں جب سعودیہ نے او-پیک کے تحت تیل کی پیداوار کو روکنے کافیصلہ لیا تو،واشنگٹن کی جانب سے سعودیہ کو نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی۔ جس کا دفاع کرتے ہوئے سعودیہ نے بیان دیا کہ اس اقدام کا مقصد صرف تیل کی منڈی کو مستحکم کرنا ہے، قیمتوں کو بڑھانا نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اس طرح کی دھمکی اور پیشی پر مشتمل حالات نے سعودیہ کو ابھارا کے اب اسے فقط امریکہ کے اتحادی کے طور پر نہیں رہنا چاہیے ۔ویسے بھی وہ امریکن اتحادیوں، یوکرین اور سابقہ افغان حکومت کا حال دیکھ چکے ہیں۔مزیدبرآں کہ ، ایم بی ایس کے، اپنے فرمانرواں کے برعکس ، الگ نظریات ہیں ۔معیشت کو محور بناتے ہوئے انہوں نے اپنی ریاست کے لئے معاشی ایسے تمام عوامل ، جن کو حرم کی سرزمین ہونے کی وجہ سے موزوں نہیں سمجھا جاتا ، ان سب کی اجازت دی ہے ۔ چونکہ محمد بن سلمان ، سعودیہ میں متعدد طریقوں سے معاشی خوشحالی کے خواہاں ہیں ، اور اس کے حصول کے لئے وہ خطے میں امن چاہتے ہیں، خاص کر مسلم اور پڑوسی ریاستوں کے ساتھ تاکہ ان کا معاشی منصوبہ آسانی کے ساتھ اپنے اہداف کو مکمل کر سکے ۔ جبکہ اتحاد کی دوسری رکن ریاست کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ امریکن تسلط سے چھٹکارے کی متلاشی ہے ۔ایران پر امریکہ کی جانب سے لگائی جانیوالی ہر قسم کی تجارتی پابندیوں کی وجہ سے وہ علیحدگی کا شکار ہوچکا ہے۔ لہذا اب ایران کی پالیسی میں یہ بات سر فہرست ہے کہ اس کو دیگر ریاستوں ، خصوصی طور پر مسلم اور ہمسایہ ریاستوں سے تعلقات استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ریاض کے ساتھ اچھے تعلقات کا مطلب ،پوری مسلم دنیا سے تعلقات کی بحالی ہے۔ جس کے بعد ایران کے لئے بھی بہت سے در وا ہوسکیں گے۔ اب اگر ہم اس کو چائنا کی دنیا پر بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے تناظر میں دیکھیں ۔تویہ بالکل واضح ہے کہ اس معاہدے نے کس طرح سے امریکہ کو دھچکہ پہنچایاہے کیونکہ ریاستوں کے درمیان ثالثی کا ٹھیکہ تو فقط امریکہ کا تھا۔ چائنا کی جانب سے دو ریاستوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنا ، مطلب دنیا کو پیغام دینا ہے کہ اب وہ اس پوزیشن میں آچکا ہے جب ریاستیں اس سے امریکن خوف کے بغیر تعلقات استوار کر سکیں۔ جیسے جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ نے یورپ کی مالی امداد کر کے اس کو جنگی بحرانوں سے چھٹکارا دلوایا تھا اور پھر پورے یورپ کو اپنے اتحادیوں میں شامل کر لیا تھا ، اب ایسے ہی حصوں میں بٹی ہوئی مشرق وسطی کی ریاستوںکے مابین ثالث، چائنا بن رہا ہے۔ لہٰذا چائنا کے اس اقدام کو منی مارشل پلان کا نام دیا جارہا ہے۔ جبکہ چائنا و روس تعلقات میں ” نئے دور” کا آغاز بھی ایک کاری ضرب ہے۔
دوسری طرف ،سنی اور شیعہ فرقوں کی اہم مسلم ریاستوں کا اتحاد عالمی تعلقات کے نئے ڈھانچے کو تعمیر کر رہا ہے ۔ جس کے مسلم دنیا پر تیزی سے اثرات مرتب ہونگے۔ سعودیہ اور ایران کے درمیان ،دشمنی بنیادی طور پر ایک سیاسی اور معاشی جدوجہد تھی جو، مذہبی اختلافات کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے ۔ جبکہ، دونوں ممالک میں الگ الگ فرقوں کی اکثریت کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ خطے میں تنازعات کو بڑھانے کے لئے فرقہ واریت کا استعمال کرنے لگے تھے جس سے ان کا مفاد ، محض جغرافیائی سیاست کا حصول تھا ۔ دونوں ریاستوں کی آپس کی دشمنی نے خطے کا سکون غارت کرکے رکھ دیا تھا۔ ان دونوں ممالک نے شام ، یمن ، لبنان کو ” پراکسی ریاست” کی طرح استعمال کر نا شروع کردیا تھا ۔ جس میں یہ متضاد گروہوں کو معاونت فراہم کر کے ایک دوسرے کے نچلا دکھانے کے لئے مسلم امہ کا اتحاد اور انکی طاقت ختم کرتے جارہے تھے۔ بہرحال ، ۔دونوں ریاستیں -وہ بھی ایسے وقت میں جب مسلم دنیا کی ایک اہم ریاست ، ترکی بھی کمزور ہورہا ہے- ایک ہی پیچ پر ہیں ۔تو ،قوی امید ہے کہ شام ، یمن ، لبنان میں امن قائم ہوسکے گا۔ ساتھ ساتھ عراق میں بیس سال قبل امریکن حملے سے شروع ہونے والی تباہ کاریاں بھی خاتمے پر پہنچنے لگیں گی۔سسکتے ہوئے فلسطین کے زخموں پر یہ کس طرح پھائے رکھے گا اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ فلسطین پر شب خون مارنے والی ریاست، اسرائیل کی اپوزیشن نے ایران اور سعودیہ کے خوشگوار تعلقات کو موجودہ اسرائیلی حکومت کی "خارجہ پالیسی کی ناکامی” قرار دے دیا۔اسرائیل جو عرب دنیا کے پیچ میں بیٹھا ہے اورنہتے بے گناہ فلسطینوں پر مظالم کی انتہا ڈھا رہا ہے ، اس کیلئے مسلم ممالک میں امن اور اتحاد قائم ہونے کے بعد یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں رہیگا ،جتنا اب ہے۔ مزیدبرآں ، اسرائیل کی سرپرست ریاست امریکہ کے لئے بھی اسرائیل کا کمزور ہونا ، اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ جبکہ، او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم( کی مضبوطی ،مسلم اتحاد کے ساتھ روز بروز بڑھتی جائے گی۔ اوآئی سی کے پلیٹ فارم سے جب بھی کوئی فیصلہ لیا جائے گا یا پھر قرار داد پیش کی جائے گی تو دنیا کی نظرو ں میں وقعت رکھے گی۔بہرحال،اگر ایک عام جائزہ لیں تو ہمیں یہ مصالحت ہر طرح سے عرب ممالک کے لئے خوشحالی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ جس سے باقی تمام مسلم دنیا کی حالت میں بھی سدھار متوقع ہے۔حقیقتا، یہ اس وقت چیلنج ہوگا کہ پاکستان اپنی پالیسز کوایسی حکمت عملی کے ساتھ مرتب کرئے جس میں وہ تسلط پسندی کے باہمی تضادات کا نشانہ نہ بنے۔ لہذا،پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا ازنوسر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کو اپنے ملکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے طے کرنا ہوگا کہ اس کو "بلاک سیاست” کے اس عالمی ماحول میں کیسے ایک موثر اور قابل عمل متوازن پالیسی بنانی ہے ۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات