مشرقیات

سیدنا عمر نے اپنے دور خلافت میں عدل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی اور عادل حکمران بن کر تعلیمات عدل کو دنیا میں پھیلا دیا، مساوات و برابری اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا، ابن عباس سے مروی ہے کہ : تم عمر کا ذکر کیا کرو،کیونکہ جب تم عمر کو یاد کرو گے تو عدل و انصاف یاد آئے گا اور عدل و انصاف کی وجہ سے تم اللہ کو یاد کروگے۔ (اسدالغابہ :/ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک مرتبہ قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمر کے پاس بھیجا تاکہ احوال کا جائزہ لے اور نظام و انتظام کا مشاہدہ کرے، جب وہ مدینہ منورہ آیا تو اس کو کوئی شاہی محل نظر نہیں آیا، اس نے لوگوں سے معلوم کیا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے، البتہ ہمارے امیر ہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر گئے ہوئے ہیں، قاصد تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر آگیا جہاں امیر المومنین سیدنا عمر دھوپ کی گرمی میں ریت پر اپنے درہ کو تکیہ بنائے آرام فرما رہے تھے، پسینہ آپ کی پیشانی سے ٹپک رہا تھا، جب اس نے دیکھا تو سیدنا عمر کے جاہ وجلال اور رعب سے وہ گھبراگیا اس نے کہاکہ اے عمر ! واقعی تو عادل حکمران ہے، اسی لئے تو آرام سے بغیر کسی پہرہ اور حفاظتی انتظامات کے تنہا خوف اور ڈر کے بغیر آرام کر رہا ہے اور ہمارے بادشاہ ظلم کرتے ہیں اس لئے خوف و ہراس ان پر چھایا رہتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین حق ہے، میں اگر قاصد بن کر نہیں آتا تو مسلمان ہو جاتا لیکن میں جا کر اسلام قبول کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بلند مقام ومرتبہ عطاء فرمایا تھا اور آپ کی حکمرانی کے چرچے طول وعرض میں پھیل چکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی تواضع و سادگی اور زہد و تقویٰ میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا گیا، آپ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس حال میں چھوڑا اسی پر پوری زندگی گذر جائے، عمدہ کھانوں، بہترین غذا اور اسباب تنعم سے ہمیشہ گریز ہی کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اہل بصرہ کا ایک وفد حضرت عمر کے پاس آیا، ان لوگوں کے لئے روزانہ تین روٹیوں کا انتظام ہوتا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بطور سالن کے روغن زیتون پایا، کبھی گھی، کبھی دودھ، کبھی خشک کیا ہوا گوشت جو باریک کرکے ابال لیا جاتا تھا، کبھی تازہ گوشت اور یہ کم ہوتا تھا، انہوں نے ایک روز ہم سے کہا کہ اے قوم! میں اپنے کھانے کے متعلق تم لوگوں کی ناگواری و ناپسندیدگی محسوس کرتا ہوں، اگر میں چاہوں تو تم سب سے اچھا کھانے والا، تم سب سے اچھی زندگی بسر کرنے والا ہو جائوں، میں بھی سینے اور کوہان کے سالن اور باریک روٹیوں کے مزے سے ناواقف نہیں ہوں لیکن میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سن رکھا ہے کہ لباس و پوشاک میں بھی اسی طرح کی سادگی آپ نے اختیارکی جو ہر ایک کے لئے نہایت حیرت انگیز اور ایمان افروز ہے، حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ دے رہے تھے اور آپ کے جسم پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے(مناقب امیر المومنین عمربن الخطاب لابن الجوزی) اس طرح بے شمار واقعات آپ کی سیرت میں موجود ہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی