بے لاگ نوشتہ دیوار

پاکستان میں جاری حالات پر بے برگ اور غیر جانبدارانہ تبصرہ یا موقف بہت مشکل کام ہے کیونکہ فریقین میں ہر ایک اپنی بات اور مؤقف پیش کرنے کے لئے ہزار دلائل اور ثبوت پیش کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے ‘اور یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ گزشتہ ستر برسوں سے چلا آرہا ہے ۔ وطن عزیز میں حکمرانی کے حوالے سے ایک بڑا اور بنیادی قضیہ جمہوری اصولوں کے مطابق قائم ملک میں جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کرملک میں مارشل لاء کا نفاذ تھا ۔ آج تک ہماری مجلسوں اور سیاسی بحث مباحثوں میں اس بات پرگرما گرمی ہوجاتی ہے کہ ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کی ذمہ داری سیاستدانوں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کے سبب ممکن ہوا یا چند ایک طالع آزما جرنیلوں نے اپنے ” ذوقِ خدائی” کی تسکین کے لئے پاک سر زمین کو ایک عشرے تک زمین بے آئین بنا کر رکھا ۔ پھر بات یہاں کی نہیں بلکہ خدا خدا کر کے ایوب خان و یحییٰ خان سے مملکت خداداد کے دونیم ہونے پر جان چھوٹی تو پہلی دفعہ آئین بھی ملا اور انتخابات و جمہوریت سے عوام آشنا ہوئی ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو جمہوریت اور ووٹ کے استعمال کا شعور دیا ۔ اگرچہ بھٹو صاحب نے بھی دو تہائی اکثریت کے حصول کے لئے جلد بازی اور ”جھرلو”کا مظاہرہ کیا ، جس کے سبب ایک دفعہ پھر جمہوریت پٹڑی سے اتر گئی ، اب یہاں بھی وہی بحث آج تک چلی آرہی ہے کہ غلطی جمہوری حکمرانوں سے ہوئی یا جنرل ضیاء الحق کو ”اسلامائزیشن” کے شوق نے مہمیز لگائی ۔ ویسے شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ہوا ہو کہ اتنے سارے سیاستدانوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہ ہو سکا ہو کہ آئین و قانون کے تقاضوں کے باوجود انتخابات جوان کے وجود و بقاء کے لئے لازمی چیز نہ کرانے کیلئے ایسے حیلے بہانے تراشیں، پھر جس کی وجہ سے وطن عزیز پر ایک دنیا ہنستی یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں اور سیاستدانوں کے لئے اس میں عبرت آموزسبق بھی پوشیدہ ہیں کہ آخر وہ کون سی قوتیں اور عوامل ہیں جو سیاستدانوں کو کھیل قوانین کے مطابق کھیلنے نہیں دیتے ۔ ذو الفقار علی بھٹو جیسی شخصیت میں بطور انسان کے کئی ایک خامیاں پانچ چھ برس کی حکمرانی کے دوران ضرور پیدا ہوئی تھیں، لیکن یہ بات اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ان کی خوبیاں بہرحال ان کی کمی کوتاہیوں پرغالب تھیں ‘ قائد اعظم کے بعد وہ واحد سیاسی لیڈر تھے جس نے پاکستان کے عوام کے دلوں کو اپنی فی البدیہہ ا ور جذباتی تقریروں سے یوں گرمایا کہ ایک دنیا جھوم اٹھی۔لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ عوام کو مملکت کے امور میں پہلی دفعہ شامل کرنے والی شخصیت کو جو ڈیشل مرڈر کراکر عوام کو یتیم کروایا گیا آپ کے بعد بی بی بے نظیر شہید کو جلا وطننیوںکے بعد جس طرح پاکستانی سیاسی منظرنامے سے مائنس کرایا گیا ، وہ کبھی ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔ پھر نواز شریف کی حکومت کو جس بھونڈے انداز میں دو دفعہ ختم کیا گیا وہ اپنی جگہ ساری سیاسی تاریخ کی وہ دہائی ہے جس کی سمجھ عوام کو آج بھی نہیں آتی ۔ نواز شریف اور آپ کے خاندان کو گزرے ہوئے حالات و واقعات سے کم از کم یہ سبق ضرور سیکھنا چاہئے تھا، کہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف آخری حدوں تک نہ جائیں تو ملک وقوم اور سیاست کے لئے بہت بہتر رہے گا ۔
یہ بات اپنی جگہ سب کے سامنے ہے کہ بھٹو صاحب نے دو تہائی اکثریت کے حصول کے لئے جلد بازی کرتے ہوئے جو اقدامات 77ء کے انتخابات میں اٹھائے اور نواز شریف صاحب نے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد طاقت کے زعم میں جو کچھ کیا ، اس نے دونوں لیڈروں کو بہت نقصان پہنچایا۔ نواز شریف کا تو اس لحاظ سے خیر ہے کہ اس کا پورا خاندان اب بھی سیاست میں ہے اور برسر اقتدار ہے لیکن بھٹو صاحب جیسے سیاستدان کا یوں ضائع ہونا ملک و قوم کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ایسے لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔ وہ اسلامی دنیا کو یکجا کرکے ان کی قیادت کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے ۔ لیکن بیرونی اور استعماری طاقتوں کو یہ کہاں ہضم ہونے والا تھا کہ وسائل سے مالا مال اسلامی دنیا کے درمیان ہم آہنگی ہو اور ان کے وسائل اور افرادی قوت ایک دوسرے کے کام آئیں ۔ لہٰذا بھٹو صاحب کو ” خطرناک” شخصیت قرار دے کر اپنوں کے ہاتھوں ہی راستے سے ہٹا دیا گیا ۔
بھٹو صاحب کے بعد آج ایک دفعہ پھر عمران خان کی صورت میں پاکستانیوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے ایک رہنماء ملا ہے۔ عمران خان بھی ایک انسان ہے اور اس کی شخصیت میں خامیاں اور کوتاہیاں ضرور موجود ہیں۔ لیکن حق اور سچ یہ ہے کہ آج عالم اسلام میں دور دور تک اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ مجھے پی ٹی آئی سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی مجھے عملی سیاست سے کوئی سروکار اور دلچسپی ہے ، ہماری بات اور سر گرمی کا تعلق تو وطن عزیز کی سلامتی اورخوشحالی کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن اس وقت خدا لگتی اور بے لاگ بات یہی ہے کہ عمران خان پاکستانی عوام کے دلوں میں بھٹو صاحب سے بھی ایک گوتا بڑھ کر محبت پیدا ہوئی ہے ۔ بھٹو صاحب نے جیالے پیدا کئے لیکن عمران خان صاحب کو جو نوجوان(جن کو سیاسی مخالفین یو تھئے کہتے ہیں) ملے ہیں جن کو بعض ڈیڈی ممی اور برگر فیمیلی وغیرہ کہہ کر انڈر اسٹیمیٹ بھی کرتے تھے انہوں نے کمال وفاداری ہر جی داری اور قربانی کا ثبوت دیا ہے ۔ اور اس وقت پاکستان کے چاروںصوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نوجوان عمران خان کو اپنا ہیرو اور لیڈر بلکہ پیرو مرشد مانتے ہیں۔ لیکن آپ کے سیاسی مخالفین جو اس وقت خیر سے اتحاد بنا کر برسر اقتدار بھی ہیں، وہ وہ گل کھلا رہے ہیں جو اس سے پہلے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم کم ہی نظر آتے ہیں اورعمران خان سے وہ قرض اتروا ر ہے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ۔
کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی پر سو مقدمات بنے ہیں ؟- مقدمات بھی ایسے کہ جیسے مقدمہ بنانے کیلئے بہانے ڈھونڈے جارہے ہوں ‘ اور سیاسی تاریخ اور مقدمات کا ایک اور عجوبہ دیکھیں کہ مقدمات پورے پاکستان میں پھیلائے گئے ہیں ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان کسی صوبے کے بجائے پورے پاکستان کے لیڈر ہیں ۔ اتحادی حکومت نے مقدمات بنا بنا کر عمران خان کی شہرت میں دن دگنی اور رات چگنی اضافے کا خود بخود سامان کر لیا ہے۔طرفہ تماشا دیکھئے کہ وہ لیڈر جو اس بلا مبالغہ کروڑوں نوجوانوں کی آنکھوں کا تارا ہے، جب درخواست کرتا ہے کہ مجھے جان کو درپیش خطرات کے پیش نظر ویڈیو لنک پر لیا جائے، تو انکار کیا جاتا ہے ، اور جب وہ عدالت کے حکم کی بجا آوری میں حاضر ہوتا ہے اور آپ کے ساتھ آپ کے ہزاروں جان نثار بھی نکل پڑتے ہیں، تو پولیس ان کو چھوڑتی نہیں، نتیجتاً شیلنگ ، اور ربڑ گولیوں کی فائرنگ ہوتی ہے ۔ تو مقدمات بن جاتے ہیں ‘اور اس منظر کو دنیا بھر کی میڈیا کور کرتی ہے ۔ یوں مفت میں عمران خان کو شہرت ملتی ہے۔ یہ بھی شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ عوام کا ایک محبوب لیڈر اسلام آباد میں عدالت میں حاضری دینے جاتا ہے تو پیچھے اس کے گھر پر اس کے با وجود دھاوا بولا جاتا ہے کہ عدالت نے گھر کی تلاشی گھر کے نمائندے کی موجودگی میں لینے کا حکم دیا تھا ۔ لیکن ایک دنیا نے دیکھا کہ ایک قومی لیڈر کے گھر کو حملہ آور دشمنوں کی طرح تہہ و بالا کر دیا ۔اب نیا تماشا یہ لگنے والا ہے کہ عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ اور توشہ خانہ وغیرہ میں نا اہل قرار دیا جائے اور پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کی کوششیں جاری ہیں حالانکہ یہ دونوں کام ملک و قوم کے لئے اس قدر خطرناک ہیں جس قدر 1970 ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا ڈھاکہ میں اجلاس نہ بلانا خطرناک ثابت ہوا تھا۔اس وقت ملکی سالمیت کے لئے سیاستدانوں کے درمیان اس بات پر اتفاق ضروری ہے کہ سریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق عام انتخابات کرا کر اقتدار عوام کے منتخب کردہ سیاسی جماعت کے حوالہ کر کے ملک کو غیر یقینی حالات سے نکالا جائے تاکہ گلشن کا کاروبار بغیر کسی مرد اور روک ٹوک کے رواں دواں ہو کر عوام کی فلاح و بہبود کے کام ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ