پولیس کا بھیانک چہرہ

پولیس اہلکاروں کی جانب سے عوام کی درگت بنانے کا سلسلہ تو روز اول سے جاری ہے البتہ موبائل کیمرے آنے کے بعد اب اس کی ویڈیوز بنتی اور سامنے آرہی ہیں اب بھی ایسے بہت سے واقعات ہوں گے جو منظر عام پر آنے سے رہ جاتے ہوں بعض واقعات تو شہرت حاصل کرنے کے باعث پولیس کے گلے پڑ جاتے ہیں پشاور میں عامر تہکالی کا واقعہ ہو یا دیگر اس طرح کے واقعات پولیس تشدد اور قانون شکنی کا مظہر رہے ہیں عجیب اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اسے پولیس کلچر تسلیم کرکے اس وقت تک ان واقعات کے ذمہ داروں سے اعلیٰ حکام تعرض نہیں کرتے جب تک عوامی دبائو نہ بڑھے ان دنوں کچھ مفت آٹا لینے والوں کی بے صبری کے باعث ہڑبونگ ہو جاتی ہے لیکن بجائے اس کے کہ صورتحال کو صبر و تحمل کے ساتھ قابو میں کرنے کی سعی کی جائے پولیس جس رویئے کا مظاہرہ کرتی ہے وہ مرے کو مارے شاہ مدار کے زمرے میں آتا ہے بنوں میں پولیس اہلکار کی بزرگ کو تھپڑ مارنے کی وائرل ویڈیو کے بعد آئی جی کا کارروائی کی بجائے اچھے رویئے کی نصیحت کافی نہیں پولیس میں بھرتی نفسیاتی مریض قسم کے عناصر پولیس کا ایسا چہرہ عوام کے سامنے پیش کرنے کا باعث بنتے ہیں کہ عوام کی پولیس کی حمایت کی جب ضرورت پڑتی ہے تو منہ موڑ لیتے ہیں پشاور پولیس لائنز بم دھماکہ میں خود پولیس اہلکاروں کا رویہ کیا رہا اور افسران دبے لفظوں اور نجی محفلوں میں اس بارے جن خیالات کا اظہار کرتے رہے پولیس کے اعلیٰ افسران نے اس سے بھی سبق نہیںسیکھا کہ ناانصافی کس قدر تکلیف دہ چیز ہوتی ہے بنوں کا واقعہ ہو یا دیگر مقامات پر جہاں جہاں بھی پولیس کی ڈیوٹی ہو اس امر کو یقینی بنایاجائے کہ ناگزیر حالات کے بغیر کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو پولیس کی بدنامی کا باعث ہو۔ ایسا اس وقت ہو گا کہ جب پولیس زیادتی کے واقعات کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور تحقیقات کے بعد زیادتی کے مرتکب ہونے پر کاررائی ہو گی پولیس کو اس طرح کھلی چھٹی ملتی رہی تو جب بھی موقع ملے گا عوام بھی دل کی بھڑاس نکالنے کے مواقع میں پیچھے نہیں رہیں گے۔پولیس حکام کوچاہئے کہ وہ پولیس فورس کو ایک منظم فورس کے طور پر متعارف کرانے کی ذمہ داری پوری کریں ہجوم میںکسی سفید ریش بزرگ پر تشدد سے عوامی سطح پر یہ تاثر راسخ ہونا فطری امر ہے کہ پولیس کی نہ تو تربیت اچھی ہوئی ہے اور نہ ہی پولیس کو اپنے فرائض قانونی طور پر ادا کرنے سے کوئی سروکار ہے جب تک عوامی سطح پر ہتھ چھٹ قسم کے اہلکار موجود ہوں گے اور عادت سے مجبور ہاتھ اٹھاتے رہیں گے پولیس کے حوالے سے عوام میں پایا جانے والا منفی تاثر کبھی بھی مثبت میں نہیں بدل سکتا۔

مزید پڑھیں:  عوامی رقم کا ضیاع