آئینی عہدیداروں میں تبادلہ پریس ریلیز

ملک میں آئین کا وجود بقا اور تحفظ وتشریح کا معاملہ ایک بار پھر اعلیٰ عدالت میں پہنچ گیا ہے ۔عدلیہ اب اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ حکومت وقت نے اس کے واضح احکامات پر عمل درآمد کرنے میں لیت و لعل سے کام کیوں لیا ۔ یہ کہانی جب کھلے گی تو حکومت کو ان حالات کی وضاحت کرنا پڑے گی جن کی وجہ سے انتخابات کا انعقاد عدالت کے احکامات کے باوجود ممکن نہیں ۔ملک کسی اندرونی اور بیرونی جنگ کا شکار ہے یا حکومت کے پاس انتخابات کے انتظامات کے لئے رقم باقی نہیں رہی ۔جنگ کا تو اندرونی اور بیرونی سطح پر کوئی ماحول نہیں ۔پشاور دھماکے اور سوات میں طالبان کی موجودگی ایک معمولی سا جواز بننے اور فراہم کرنے کی جارہی تھی مگر عوام کے اجتماعی ضمیر نے اس عذرلنگ کو قبول نہیں کیا اور ان کاروائیوں کو درست یا غلط انتخابات سے فرار اور انکار کی کوششوں سے جوڑ دیا ۔یوں حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے ۔شکر ہے کہ اس کے بعد دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونمانہیں ہوا ۔اس طرح امن وامان کی صورت حال کے باعث انتخابات سے فرار کا بہانہ مارکیٹ میں چلنے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ۔دوسرا بہانہ خزانے کا خالی پن اور معیشت کی بدحالی ہے ۔پاکستان کا خزانہ کب بھرا رہا ہے ۔دہائیوں سے پاکستان کے معاملات آئی ایم ایف کی قسط کی آمد اور اجرائیگی سے وابستہ چلے آرہے ہیں ۔آج جبکہ ملک معاشی بدحالی کی انتہائوں کو چھورہا ہے تو اب بھی آئی ایم ایف کی قسط کا انتظار ہو رہا ہے ۔جس دن یہ قسط جاری ہوگئی تو حاکمان وقت کے چہرے خوشی سے دمک اُٹھیں گے ۔آئی ایم ایف کی قسطوں کے ساتھ اگر انتخابات کو جوڑا گیا تو شاید ہی ملک میں مستقبل قریب میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا ۔اگر ملک کے معاشی حالات سدھرنے تک انتخابات سے منہ موڑا گیا تو یہ دکانوں پر آویزاں اس جملے کے مترادف ہوگا کہ ”کشمیر کی آزادی تک ا’دھار بند ہے ” ۔حالات واقعات کے آئینے میں یہ انکار ہی ہے ۔معیشت کی بدحالی کے ساتھ انتخابات کو مشروط کرنے کا مطلب یہ ہے الیکشن کا کاروبار بند کر دیا جائے اور چیف الیکشن کمیشن آفس کے صدر دروازے پرغیر معینہ مدت کے لئے تالے چڑھا دئیے جائیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کے واضح احکامات کے باوجود دوصوبوں میں انتخابات کو ملتوی کرنے کا اعلان کردیا ۔جس کے بعد ملک ایک آئینی بحران کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے ۔الیکشن کمیشن نے حکومت کی طرف سے عدم تعاون کو بنیاد بنا کر اپریل میں انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرا ردے کر یہ فیصلہ سنایا ۔حکومت اس فیصلے کے دفاع میں پوری طرح کھل کر سامنے آئی ہے اور وزرا اور ترجمان ٹی وی چینلز پر انتخابات کے التوا کی حمایت میں جم کر بول رہے ہیں ۔دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت انتخابات کے معاملے پر سرینڈر کرنے کو تیار نہیں۔شیخ رشید احمد نے انتخابات کے التوا کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے اور یوں ہر قانونی اور آئینی معاملے کی طرح یہ گیند بھی عدالت کی کورٹ میں چلی گئی ہے ۔
اب عدالت اس موقف کو اپنے فیصلے کی روشنی میں اور قانونی اور آئینی پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر سماعت کا آغاز کرے گی ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کے نام لکھے گئے خط میں انتخابات کے التوا کو غیر آئینی قرار دے کر اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کو کہا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم کے انتخابات سے فرار سے متعلق کئی اہم آئینی نکات سوال کی صورت میں اُٹھائے تھے ۔اس کے جواب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر مملکت کے خط کو دلیل سے جواب دینے کی بجائے اسے پی ٹی آئی کی پریس ریلیز قرار دیا۔گویاکہ صدر کی طرف سے پی ٹی آئی کی پریس ریلیزجواب وزیر اعظم نے مسلم لیگ ن کی پریس ریلیز کے ذریعے دیا ۔ ملک کے اہم ترین آئینی عہدیداروں کے درمیان اہم آئینی مسائل پر یہ توتکار حالات کی سنگینی اور معاشرے کی تقسیم کی گہرائی کا پتا دیتی ہے۔ صدر مملکت نے ہی اپنے آئینی اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے دوصوبوں میں انتخابات کی تاریخ دی تھی ۔جسے اول اول حکومت نے تسلیم کرنے کی بجائے کہا تھا کہ صدر کی اوقات نہیں کہ وہ انتخابات کی تاریخ دیں ۔جب معاملہ عدالت میں گیا تو عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ صدر انتخابات کی تاریخ دینے کے پوری طرح مجاز ہیں ۔ صدر کے اس خط پر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بہت درشت لہجے میں اپنا تبصرہ کیااور کہا صدر اپنی اوقات میں رہیں ۔عمران خان نے ایک خطاب میں سوال اُٹھایا ہے کہ اس بات کی ضمانت کیا ہے کہ نومبر میں انتخابات ہوں گے ۔انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی طرف سے نوے دن میں انتخابات کے وعدے کی بات کی جب بات نوے دن سے گیارہ سال تک دراز ہو گئی تھی ۔بات تو سچ ہے کہ انتخابات کا التوا آئینی اور قانونی پنڈورہ باکس کھولنے کا نقطہ آغاز ہے ۔قانونی ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابات کا التوا کرکے آئین شکنی کی ہے ۔یہ سوال بھی موجودہے کہ نگران حکومتوں کی میعاد پوری ہونے کے بعد اس خلاء کو کون پُر کرے گا ؟۔نگران حکومتیں آئین کے تحت نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لئے قائم کی گئی ہیں اور ان حکومتوں کی عمر دراز کرنے کی کوشش بھی آئین کی حدود سے نکلنے والی بات ہوگئی ۔آئین شکنی کی ان پہ در پہ وارداتوں کے بعد ملک میں ایک بڑا آئینی بحران پیداہوتا نظر آرہا ہے ۔ ستمبر کے مہینے میں صدر مملکت کے عہدے کی میعاد بھی پوری ہو رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس وقت کو گزارنے کے لئے الیکشن کمیشن نے آٹھ اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے ۔اب یہ خوفناک بحران عدلیہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ بند گلی میں پھنسی ہوئی قوم کو کس طرح باہر نکلنے کا راستہ دیتے ہیں ۔اچھا ہوتا کہ سیاست دان اپنے مسائل کا بوجھ عدالت پر ڈالنے کی بجائے قانون اورآئین کے تابع رہ کر فیصلے کرتے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آیا اور اب معاملات عدالت عظمیٰ کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں ۔عدلیہ آئین کی محافظ اور شارح ہوتی ہے اور عمومی تاثر یہی ہے کہ عدالت اپنے احکامات کی روگردانی کو قبول نہیں کرے گی اور آئین کی حدود سے نکلنے کی کوششوں کو مسترد کیا جائے گا ۔انتخابات جیسی خالص جمہوری اور آئینی سرگرمی سے دامن چھڑانے اور نظریں چرانے کی وجہ صرف فرد واحد کا خوف ہے ۔جمہوریت اس طرح خوف کے عالم میں نہیں چلتی ۔نہ پسند وناپسند کے معیارات کے سائے میں آگے بڑھتی ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا