سیاسی کشیدگی میں کمی لانے کی احسن سعی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے عیدالفطر کے بعد کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا امکان کشیدہ سیاسی ماحول میںامید کی کرن ہے ذرائع کا بتانا ہے کہ اے پی سی کا ایک نکاتی ایجنڈا عام انتخابات کی تاریخ طے کرنا ہو گا، جماعت اسلامی اس امر کے لئے کوشاں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن الیکشن کیلئے ایک تاریخ پر اتفاق کر لیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اے پی سی میں حکومت کو اکتوبر سے قبل اور پی ٹی آئی کو مئی کے بعد الیکشن کیلئے رضا مند کرنے کی کوشش کی جائیگی۔( ن) لیگ سے سعد رفیق اور ایاز صادق کو جماعت اسلامی سے معاملات بڑھانے کیلئے گرین سگنل مل گیا ہے جبکہ پرویز خٹک ‘ سینیٹر اعجاز چوہدری اور محمود الرشید تحریک انصاف کی جانب سے نامزد کئے گئے ہیں۔حکومت اورتحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے صرف جماعت اسلامی نے کوشش نہیں کی بلکہ گزشتہ ماہ سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی دونوں پارٹیوں کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے لیے قائل کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ مفصل ملاقاتوں کے بعد سیاسی تپش میں کمی کی توقع ہے۔ جس کے بعد الیکشن پر حتمی مذاکرات کے لیے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کی طرف پیش رفت ہو سکتی ہے۔اس کے بغیر موجودہ بحران سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ سیاسی فریقین سے بات چیت کا پہلا مرحلہ مثبت پیش رفت پر اختتام پذیر ہوا ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کی طرف سے انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان دونوں نے مثبت ردعمل دیا ہے۔کمیٹی بنانے سے ہر دو جانب سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔تاہم دوسری جانب عقابوں سے بھی خطرات کا امکان ہے حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سنیچر کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے عمران خان سے مذاکرات کی مخالفت کا اعلان کر چکے ہیں۔وہ کسی طور بھی اس پر آمادہ نہیں لیکن بہرحال سیاسی موقف میں تبدیلی کوئی انوکھی بات نہیں ہوتی جس طرح تحریک انصاف کے قائد دو سیڑھیاں اتر گئے ہیں اس طرح پی ڈی ایم بھی دو قدم آگے بڑھ سکتی ہے بہرحال مذاکرات اور مذاکراتی ایجنڈا بعدکی بات ہے سب سے پہلے درجہ حرارت کو معتدل بنانا ضروری ہوگا۔سیاستدانوں کو دیریا بدیر اسی نتیجے پر پہنچنا ہوگا کہ پاکستان کو اس وقت جس سیاسی، معاشی، آئینی بحران کا سامنا ہے، اس کا حل کسی عدالت یا اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ممکن نہیں، سیاست دانوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں۔ موجودہ حالات سے نکلنے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ عوام سے رجوع کیا جائے اور انتخابات کے لیے ایک تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔مگر مشکل ہی یہ ہے کہ وفاق میں اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہیں پایا جاتا۔اتحادی حکومت نے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد سے انکار کیا ہے جبکہ عمران خان حکومت سے برطرفی کے بعد وقت سے پہلے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے درست کہا ہے کہ الیکشن کے مسائل سپریم کورٹ حل کر سکتی ہے نہ اسٹیبلشمنٹ لہذا دونوں اداروں کو ان معاملات میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ان حالات میں مثبت پیش رفت یہی ہو سکتی ہے کہ الیکشن ہوں، الیکشن پر ہم سب کا اتفاق ہونا چاہیے۔سراج الحق کا کہنا تھا صرف پنجاب یا خیبر پختونخوا کے الیکشن سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، مرکز اور چاروں صوبوں میں بھی الیکشن ہوں ہم الیکشن اور صرف الیکشن کے لیے مثبت ڈائیلاگ چاہتے ہیں۔سپریم کورٹ سیاستدانوں کو چانس دے کہ وہ خود اپنے مسائل حل کر لیں۔ملک میں سیاسی بحران بلکہ عدالتی اور آئینی بحران سبھی کے خاتمے کی راہ نکالنے کی سنجیدہ سعی ہونی چاہئے سیاسی اختلافات ان بحرانوں کی ماں کا درجہ حاصل کر چکی ہے بنا بریں اگر سیاسی مکالمہ کیا جائے تو عدالتی اور آئینی بحران کے خاتمے کی راہ خود بخود ہموار ہوسکتی ہے لیکن سیاسی مقدمات میں عدالت عظمیٰ اپنے احکامات پر جس مقام پر کھڑی ہے اور حکومت ببانگ دہل خلاف ورزی پر تلی ہوئی ہے یہ نازک مرحلہ طے بھی ہوبھی جائے تو بھی اس کے اثرات سے جلد چھٹکارا حاصل نہیں ہو سکتا عدالت اور پارلیمان دونوں کا وقار دائو پر نظر آتا ہے کوئی قدم اٹھاتے وقت اگر وہ اس کے مضمرات پر غور کرتے تو شاید دونوں بند گلی کے مسافر نہ بنتے بہرحال جس طرح معاملات میں بگاڑ آیا اس کو سدھارنے کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا اور ادارہ جاتی و سیاسی ہر دو سطحوں پر جذبات اور شدت پسندی کے مظاہرے کی بجائے مفاہمت سے صورتحال سے نکلنے کی سعی کرنی ہو گی جہاں تک سیاسی مکالمے کا تعلق ہے بطور سیاسی جماعت اور اتحاد کسی کو بھی اس جمہوری طریقے سے انکار نہیں ہونا چاہئے البتہ اس کے باوجود اس کا انحصار فریقین کے رویے پر ہو گا کہ وہ خلوص دل کے ساتھ اور مفاہمت کے جذبے کے ساتھ مکالمہ کی طرف آئیں سخت شرائط اور اپنی منوانے کی ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔یہ ملک صرف سیاستدانوں اور حکمرانوں کا نہیں بائیس کروڑ سے زائدپاکستانیوں کا ملک ہے سے جسے اس طرح دائو پرلگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تمام تر مساعی کے باوجود بھی فریقین معاملہ کے تیور اور ان کا ماضی دیکھ کر امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی اس کے باوجود توقع کی جانی چاہئے کہ فریقین ہوش کے ناخن لیں گے اور اپنی ضد اور انا پر ملک کو قربان کرنے سے احتراز کرکے مکالمہ اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت معاملات کو آگے بڑھا کر ملک کو بحران سے نکالا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد سخت آمد