بڑی پیش رفت

ملک میں انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے لے کر عدالتوں تک اور پارلیمان سے لے کر کوچہ کوچہ ‘ گلی گلی جس قسم کی بے یقینی کی کیفیت رہی اور اس معاملے پر جس طرح پارلیمان اور عدالت عظمیٰ آمنے سامنے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیںحکومت نے توہین عدالت سے بچنے کے لئے پارلیمان کی آڑ لی اس کے باوجود یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے پر نہیں آیا اب جبکہ سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی جانب سے ملک بھر میں تمام اسمبلیوں کے ایک ساتھ کرانے کا حکم دینے کی درخواست سماعت کے لئے مقرر کر دی ہے قطع نظر اس کے کہ اس پر عدالت کی جانب سے کیا حکم آتا ہے اور اس میں کتنا وقت لگتا ہے بہرحال بالآخریہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ اب شاید اس بحران کااونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے ۔ امر واقع یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور پھر بعض عدالتی فیصلوں سے پیدا ہوئے بحران کا حل تلاش کرنا یقینا وقت کی ضرورت ہے کیا اس ضرورت میں اس امر کو نظرانداز کردیا جائے گا کہ جس فیصلے کی بنیاد ہی متنازعہ ہوچکی ہو اس پر عملکس طرح سے ممکن ہو پائے گا علاوہ ازیں بھی ملک میں بحران اور غیر یقینی کی کیفیت طاری ہے ملک کی عمومی صورتحال یہ ہے کہ صدر مملکت نے سینیٹ کا اجلاس بلانے سے انکار کردیا جس پر فیصلہ ہوا کہ سینیٹ کا اجلاس بلانے کے لئے ریکوزیشن جمع کروادی جائے۔ فی الوقت صورت یہ ہے کہ حکومت کا منہ کسی طرف ہے ایوان صدر کا کسی اور طرف، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کسی اور سمت کی نشاندہی کررہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے اصل متاثرین اس ملک کے عوام ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتے شہری کس کے دروازے پر فریاد لے کر جائیں یہ سوال موجودہ حالات میں ہر چہرے پر لکھا ہے۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ بالادستی اور انا کی اس جنگ میں مجبور و محکوم شہریوں کی محرومیاں اپنی جگہ البتہ اداروں کے وقار اور احترام کو دھول چاٹنا پڑے گی۔مگر کسی کو بھی حالات کی نزاکت اور نزاکت کی سنگینی میں تبدیل ہونے کا احساس نہیں۔ بعض معاملات اور فیصلوں کی وجہ سے جس طرح عدلیہ اور پارلیمان آمنے سامنے ہیں اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا اگر پاکستان بار کونسل کی اس پہلی تجویز کو پیش نظر رکھ کر سپریم کورٹ کا فل بنچ بنادیا جاتا۔تو ان کے فیصلے سے کسی کو اختلاف نہ ہوتا مگر باوجود مطالبات کے ایسا نہ ہوا جس کا نتیجہ بحران کی صورت میں سامنے ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو ہفتے کے دوران چیف جسٹس سمیت متعدد ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز دائر کرنے کا پرجوش عمل جاری ہے یہ ریفرنس باز کون ہیں ان کی ڈوریں کون ہلارہا ہے رضاکارانہ مہم جوئی ہے یا کسی منصوبے کا حصہ، اس پر ہر طرف سوالات کی بھرمار ہے۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ اگر پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لئے ازخود نوٹس کی سفازش اور نوٹس لئے جانے پر بنیادی اہمیت کے اس سوال پر غور کرلیا جاتا کہ "کیا پیشگی سیاسی معاہدے کے تحت اسمبلی تحلیل کرنا آئین کی روح کے مطابق ہے” تو کم سے کم وقت میں اصلاح احوال ممکن تھی مگر جو راستہ اپنایا گیا اس سے محاذ آرائی کی صورتحال تو پیدا ہوئی ہی عدالتی فیصلہ بھی متنازعہ ہوگیا۔گزشتہ روز قومی اسمبلی میں توہین پارلیمان کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کو محض جذباتی تقاریر کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا ہی کام ہے۔ عدالت قانون کی تشریح کرسکتی ہے قانون سازی اس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ ہماری دانست میں فریقین نے اپنی اپنی انا کے تحفظ میں معاملات کو جس طور بگاڑدیا ہے اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا البتہ نقصان سبھی کا ہوگا بلکہ ہورہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر فریقین حوصلہ کرکے ایک ایک قدم پیچھے ہٹیں اور اصلاح احوال کے لئے سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کریں۔ بظاہر اس کی امید تو نہیں پھر بھی اگر طرفین کے لئے قابل قبول بعض شخصیات آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کریں تو عین ممکن ہے بڑے نقصان سے بچا جاسکے جس کا خطرہ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ سیاسی قائدین ہی نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ذمہ داران کو بھی دیکھنا اور سوچنا ہوگا کہ جو ہورہا ہے یہ فائدہ مند ہے بھی کہ نہیں۔ اسی طرح یہ امر بھی اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کسی ادارے کو دوسرے ادارے کے اختیارات اور حدود میں تجاوز کرکے احکامات جاری کرنے سے اجتناب ہی نہیں کرناچاہیے بلکہ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس تجویز کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہی نہیں بلکہ کسی طرح کی صورتحال میں بھی کیا حدود و اختیارات طے شدہ ہیں۔ بہت احترام کے ساتھ اس امر پر متوجہ کرنا ضروری ہے کہ ایڈونچز ازم کے شوق نے ملک کو جہاں لاکھڑا کیا ہے اور جس طرح کے نئے مسائل سر اٹھارہے ہیں اس کے ذمہ دار سبھی ہیں۔ سبھی کی وضاحت غیرضروری ہوگی۔ ضروری امر یہ ہے کہ صورتحال کی سنگین اور مسائل کے گھمبیر ہونے کا ادراک کیا جائے تاکہ ملک ان بحرانوں سے نکل کر درست سمت میں آگے بڑھ سکے۔کوشش کی جانی چاہئے کہ نہ صرف حالات کو بہتر بنانے کے لئے مثبت کوششیں ہوں بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی ساکھ کی بحالی کو بھی یقینی بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''