رام رام کی لوٹ

ایک ہی روز میںآزادی حاصل کر نے والے دو ملکوں کے وزراء اعظم کے جاری ہونے والے ٹو یٹ دنیا کے سامنے آئے جس کامطالعہ کرنے والے حیر ت زدہ رہ گئے دونو ں کے مقام میںکتنا فر ق ہے جی ہا ں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مو دی نے اپنے ٹویٹ میں بھارتی قوم کو نوید سنائی کہ بھارت عن قریب چھبیس کے قریب خلائی اسٹیشن خلا میں بھیجنے والا ہے ، دوسری طرف سے پاکستان کے وزیر اعظم کے ٹویٹ میں قوم کو یہ نوید دی گئی تھی کہ وزیر اعظم نے آٹے کی تقسیم میں ہو نے والی بد عنو انی کا نوٹس لے لیا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دو ر میں پاکستانی روپے کی قدر دوگنی تھی یعنی ایک پاکستانی روپیہ بھارت کے تقریبا ًدو روپے کی برابری کرتا تھا اس وقت بھارتی ایک روپے کی قدر تقریبا ًدوروپے پاکستانی کر رہا ہے ، یہ معیشت کا حال ہو چلا ہے ، اس کی ذمہ دار کس پر عائد ہو تی ہے صاف بات ہے کہ حکمر ان ہی اس کے ذمہ دار ہیں ، یہاں یہ سوال نہیں کو ن سے حکمر ان ہر حکمران ہی ذمہ دار ہے کیو ں کہ معیشت کے ڈوبنے اور دیو الیہ کی بنیا د ” ہا تھ لال پیلے کرنے سے نہیں ” بلکہ ہا تھ” رنگ سے ہے ” ہے اس امر کا اندازہ کہ قیصر احمد شیخ کی حالیہ دنو ں میں قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے ہو جا تا ہے ، تقریر کے بعد یہ پو چھنے کی بات ہی نہیں رہتی کہ قافلہ کیوں لو ٹا ، چاہے یہ اِ دھر اُدھر کی بات کر تے رہیں گو کہ قیصر احمد شیخ بہت معروف پارلیمنٹیرین نہیں ہیں تاہم وہ ایک بہت معروف تاجر ہیں اور تاجر کی اونچ نیچ معیشت گراوٹ سے اچھی خاصی واقفیت رکھتے ہیں ، موصوف نے حکمر انو ں کو اپنی تقریر میںآئینہ دکھا تے ہوئے چٹ دکھا دیا کہ ” ہا تھ کنگن کو آرسی کیا ” قیصر احمد شیخ نے اپنی تقریر کے ذریعے قوم کو آگا ہ کیاکہ عمر انی دور میں صفر سود پر تین ارب ڈالر قرضہ دیا گیا اور وہ بھی چند امیر خاندانوں میں بند ر با نٹ کی گئی ، اقتصادیا ت کی اٹھان اور بیٹھا ن پر شیخ صاحب کوکا فی عبو ر حاصل ہے وہ 1987ء میںایو ان صنعت وتجارت کر اچی کے صدر بھی رہے ہیں انھو ں نے بتایاکہ یہ قرضہ نہ تو ضرورت مندو ں کو دیا گیا نہ چھوٹے تاجر وں یا صعنت کا رو ں کو دیا گیا نہ ہی پارلیمنٹ کو اس بارے میں آگا ہ کیا گیا ، گویا انتہائی خاموشی سے واردات ہوئی کا نو ں کا ن قوم کو بھی خبر نہ ہوئی بلکہ قیصراحمد شیخ کی اس تقریر سے آگاہی ہوئی کہ مر اعات یا فتہ افراد کو کس کس دھنک میںرنگ دیا جا تا ہے ، شیخ صاحب کے مطا بق اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے قرضہ جاری کیا اور اس کے بدلے صرف ایک دو فی صد قرضہ کے اجر اء کی خدما ت میںوصول کیے گئے ، جس کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ سے تین ارب ڈالر قرضہ کی صورت میں تقسیم ہو نے سے ایک دم زرمبادلہ کا پاکستان میں قحط پڑ ا، قرضہ کے عوض زیا د ہ تر ٹیکسائل کی جو مشینر ی منگوائی گئی وہ اب تک پیٹیوں میں جو ں کی تو ں بند پڑی ہوئی ہے اسی طر ح ایر جٹ کی مشینری خریدی گئی جس کی پاکستان میں طلب ہی نہیں ہے وہ بھی پیٹوں میں بند زنگ زدہ ہونے کو چھو ڑ رکھی ہے ، قرضہ حاصل کرنے والو ں میں سے بعض کی کمپنیو ں کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ دیو الیہ ہوگئی ہیں، لو کر لو بات اب کیا قرضہ واپسی کے امکا ن باقی رہے بھی یا نہیں ۔جس وقت قرضہ صفر فی صد پردیا گیا تب ڈالر کی قیمت غالباًایک سو باسٹھ روپے تھی، اب ڈالر اسی قرضے کے بعد سے 280اور 290 روپے کے درمیان ڈول رہا ہے تین ارب ڈالر نکل جا نے کے بعد سے ڈالر نے جو عقابی اڑان بھری ہے وہ کسی منڈیر پر بیٹھنے کا نا م ہی نہیں لے رہی ہے اب صورت حال کے ڈالر شاہین بن کر کسی اونچی سی اونچی چٹان پر بھی بیٹھنے پر آما دہ نہیں ہے ، ادھر یہ بھی معلو م نہیں کہ جن شان دار زندگی گذارنے غریب و مسکین خاندانوںکو بلا سود قرضہ سے نوازا گیا ان کے ساتھ شرائط بھی کوئی طے ہوئی تھیں یا نہیں شاید معلو م ہو جائے کیو ںکہ پارلیمنٹ کی پبلک اکا ونٹس کمیٹی نے پی ٹی آئی کے دور میں مختلف افراد اورکمپنیوں کو بلا سود تین ارب ڈالر قرض دینے کے معاملے کی تحقیقا ت کا حکم دے دیا ہے ، کمیٹی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ریکا رڈ اور قرضے حاصل کر نے والو ںکے کوائف کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں کمیٹی کے چئیر مین نو ر عالم ہیں جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے نشست جیت کر رکن بنے ، نور عالم کی بحثیت رکن قومی اسمبلی کا رکردگی دیکھ کر یہ احسا س ہو تا ہے کہ پی ٹی آئی میں سبھی بزدار نہیں نو ر عالم بھی ہیں جو اسم با مسمیٰ ہیں انھو ں نے نو ر ہی نو ر پھیلا یا ہے اسی بنا ء پر پارٹی سے راندئہ درگاہ ہوئے ،چیئر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نو ر عالم کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے بعد عید رپورٹ طلب کر لی ہے ، اس کے ساتھ ہی چئیرمین کمیٹی نے متنبہ کیاہے کہ کمیٹی کو دستاویزا ت فراہم نہ کر نے والے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے افسروں کے خلا ف ایف آئی درج کرائی جا ئے گی ، اس کے ساتھ ہی ایک ارب ڈالر حیسکول نامی کمپنی کو بھی فراہم کیے گئے تھے جو قرضہ سے نہا ل ہو نے کے بعد دیو الیہ ہوگئی ، اس کمپنی کی انتظامیہ کو گرفتار کر کے اثاثے سرکا ری تحویل لینے کی سفارش بھی کی گئی ہے ، دیکھنایہ ہے کہ کیا نورعالم اور ان کے رفقاء کا ر جس مقصد کو لے کر آگے بڑھیں ہیںکیا ا س میں کا میا ب ہوجائیں گے ، کیو ں کہ مافیا پاکستان میں ایما نداری کے مقابلے میںکا فی توانا ہے پچھتر سال کے عرصہ میں ما فیا ہی موجیں رہیں جب رضا با قر کی اسٹیٹ بینک کے طور پر تعینا تی ہوئی تھی ، اس وقت بھی ایماندار حلقوں کی جانب سے تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ رضاباقر وہ ماہر معاشیا ت ہے جس نے مصرکی معیشت کو آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ افسرکی حثیت سے دیو الیہ پن سے ہم کنار کیا ، لیکن یو تھیوں کی جانب سے اس کے لیے نغمات سرور گنگناجارہے تھے ، یہا ںایک بات ہے کہ موجو دہ قدر کے مطابق اس ساڑھے آٹھ کھرب روپے کی جو بند ر بانٹ کر کے پاکستانی خزانہ عامر ہ کو خزانہ غیبی بنا ڈالا گیااس میںاور بھی روشن چہر ے ہو ں گے جن کو گہنادیاگیا ہو گا ۔ بات اہمت کی ہے بااہمت یہاں مذہبی امور کے وزیر مولا نا عبدالشکو ر کی مثال رکھتے ہیں، شہید مولانا عبدالشکور بھی ایسی ہی لو ٹ ما ر کے خلا ف لٹ لے کر اٹھ کھڑ ے ہوئے تھے ۔ لیکن یا د رکھئے کہ مافیا تگڑا نہیں ہو ا کرتا اسے جتنا مضبوط سمجھاجا تا ہے اتنا ہی بڑا بزدل ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا