چوک یادگار بچائو مہم

تاجروں کی جانب سے صوبائی دارالحکومت پشاور کے تاریخی چوک یادگار بچائو مہم کا آغاز بالآخر کیا رنگ لاتا ہے اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا’ تاجر برادری کے مطابق تاریخی چوک یادگار ہتھ ریڑھی بانوں کے باعث اپنی تاریخی حیثیت کھو چکا ہے جبکہ چوک یادگار پولیس چوکی’ انڈر پاس، ڈاکنگ مقامات اور پیپل منڈی تک ہتھ ریڑھی بانوں کے باعث غیرملکی سیاحوں نے بھی چوک یادگار آمد بند کر دی ہے’ مزید یہ کہ تجاوزات کے باعث سکیورٹی خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں اور ان علاقوں سے پیدل چلنے والوں کو آمدورفت میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے’ علاقے کے دکانداروں کے دعوئوں کے مطابق ٹریفک پولیس ‘ ٹائون ون انتظامیہ کی نااہلی کے باعث تجاوزات مافیا نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے’ امر واقعہ یہ ہے کہ مسئلہ صرف ہتھ ریڑھیوں کی بہتات کا نہیں ہے بلکہ ان مقامات پر خود دکانداروں نے جو تجاوزات قائم کی ہیں یا پھر اپنی دکانوں کے سامنے مبینہ طور پر ناجائز کرایہ حاصل کرنے کیلئے تہہ بازاری کی اجازت دے رکھی ہے اس سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے’ خصوصی طور پر گڑ منڈی جسے آج کل جاپان مارکیٹ کا نام دیاگیا ہے میں جا کر دیکھا جائے تو پیدل چلنے والوں کو دونوں طرف سے لوہے کے جنگلوں سے بنائی جانے والی اور سامان ڈھونے والی گاڑیوں کے دھکے لگتے ہیں، ان سے بھی انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے بہر طور اس میں قطعاً شک نہیں ہے کہ ہتھ ریڑھیوں نے محولہ بیان کردہ علاقوں میں جو ات مچا رکھی ہے اس سے اس تاریخی مقام کی ” بے حرمتی” چشم کشا ہے ‘ اور متعلقہ سرکاری محکموں کا عملہ جس طرح ملی بھگت سے مٹھی گرم کر کے اس صورتحال کی حوصلہ افزائی کا مرتکب ہو رہا ہے اس پر دو آراء نہیں ہو سکتی’ اب ان ہتھ ریڑھیوں میں سے کتنوں کے پاس متعلقہ اداروں کے لائسنس ہیں اور کتنی ہتھ ریڑھیاں بغیر پرمٹ کے دندناتی پھر رہی ہیں یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے جبکہ ہتھ ریڑھیوں کے قانون کے تحت کوئی ہتھ ریڑھی کسی بھی صورت میں کسی ایک جگہ ٹک کر کھڑی نہیں ہوسکتی بلکہ اسے شہر بھر میں گھوم پھر کر اشیاء بیچنی چاہئیں’ مگر چوک یادگار میں نہیں پورے پشاور میں یہ ہتھ ریڑھیاں سٹینڈ سٹل کے فارمولے پر عمل کر رہی ہیں کیونکہ ان کی پشت پر مبینہ طور پر بااثر لوگوں کا ہاتھ ہے جن کے اپنے مفادات ہیں، تو پھر ان سے نجات کیوں کر حاصل کی جاسکتی ہے؟۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا