تم کہو ہم نہ سمجھیں خدا نہ کرے

سیاسی اور معاشی بحرانوں سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنے کے لئے جس سنجیدگی کی توقع کی جارہی تھی اس کا مظاہرہ کیا ہوتا رہی سہی کسر عدالتی فیصلوں اور پارلیمان میں ہوئی تقاریر سے پیدا ہوئے تنازعات نے پوری کردی۔ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران بعض مقدمات کی سماعتوں کے مراحل میں کمرہ عدالت میں دیئے گئے ریمارکس اور اسی عرصے میں پارلیمان میں ہوئے دھواں دھار خطابات ہر دو سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہرگز نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی 14مئی کو پنجاب اسمبلی کا الیکشن کرانے کے حکم پر نظرثانی کے لئے دائر درخواست کو نمبر الاٹ کردیا گیا البتہ جمعہ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے الیکشن کے معاملے پر تین رکنی بنچ کی سماعت کے دوران کہا کہ ہم نے ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد پر مذاکرات کے لئے سیاسی جماعتوں کو کوئی حکم نہیں دیا تھا البتہ یہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے معاملات کو خود طے کریں۔ دوران سماعت ایک مرحلہ پر انہوں نے پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دیکھ لیں ہم کس تحمل کے ساتھ بات کررہے ہیں اس کا موازنہ پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر سے کیجئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت یہ بھی کہا کہ حکومت 14مئی والے فیصلے کے خلاف نظرثانی کے لئے نہیں آئی اب نظرثانی کا وقت گزرچکا۔ کیا چیف جسٹس اس امر سے صریحا لاعلم ہیں کہ حکومت پہلے دن سے یہ کہہ رہی ہے کہ فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہوا ہے تین دو کے تناسب سے نہیں؟ فہمیدہ انداز میں یہ کہ وفاقی حکومت اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتیں الیکشن کے معاملے میں تین دو کے تناسب سے دیئے گئے فیصلے کو ہی نہیں مان رہے۔ جب کوئی فریق کسی فیصلے کو نہیں مانتا تو وہ اس پر نظرثانی کے لئے کیسے رجوع کرے گا۔ نظرثانی کی اپیل کا تو سادہ سا مطلب یہ ہوتاہے کہ عدالت کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر ہماری رائے میں دوران سماعت ان نکات کو مدنظر نہیں رکھا گیا اس لئے ہم درخواست گزار ہیں کہ ان نکات پر ازسرنو غور کیا جائے۔ ہماری دانست میں یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ عدالتی فیصلوں اور ججز کے ریمارکس سے بحران کا دروازہ کھولنے اور خود ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج صاحبان کے نظری اختلافات کو بحث کا موضوع بنوانے کی بجائے اس سارے معاملے کی سماعت کے لئے ابتدا ہی میں اولا سینئر ترین ججز پر مشتمل بنچ بنادیا جاتا یا پھر فل کورٹ بنانے کی درخواستوں کو قابل پذیرائی قرار دے دیا جاتا۔ معاملات نے اب جہاں لاکھڑا کیا ہے اس پر عوام الناس کا اضطراب بجا طور پر درست ہے۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ چیف جسٹس کہہ رہے ہیں کہ ہم نے مذاکرات کیلئے کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا لیکن تحریک انصاف کے ذمہ داران تواتر کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ مذاکرات عدالتی حکم پر کررہے ہیں پی ٹی آئی نے مذاکرات کے حوالے سے عدالت میں اپنی رپورٹ اور سفارشات بھی جمع کرائیں۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی بحرانوں کے ساتھ عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان بعض حالیہ فیصلوں اور قانون سازی کے حوالے سے پیدا ہوا تنازع ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کی یہ رائے بلاشبہ اہمیت کی حامل ہے کہ ایک قانون جو حتمی منظوری کے بعد نافذ ہی نہ ہوا ہو اس کے نفاذ پر حکم امتناعی جاری کرکے عدالت عظمی نے پارلیمان کے حق قانون سازی پر قدغن لگائی جوکہ درست نہیں۔ اس عدالتی بحران میں سیاسی ترجیحات کے لئے خود کو انصاف کے محافظوں کے طور پر پیش کرنے والے طبقات کا استدلال جو بھی ہو یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ عدلیہ قانون کی تشریح تو کرسکتی ہے قانون سازی پر قدغن لگاسکتی ہے نا خود سے قانون سازی کرسکتی ہے۔ پچھلے ایک برس سے جاری سیاسی بحران کے دوران متعدد ایسے فیصلے بہرطور آئے جن سے اس رائے کو تقویت ملی کہ آئین سازی کا بوجھ بھی سپریم کورٹ نے خود اٹھالیا ہے جیسا کہ 63اے کی تشریح کے ضمن میں د یکھنے میں آیا۔ مناسب ہوتا کہ جمعہ کی سماعت کے دوران رنجیدہ انداز میں پارلیمان میں کی جانے والی تقاریر پر وکلا کو متوجہ کرنے کی بجائے دو باتوں پر عدالت بھی غور کرلیتی اولا یہ کہ قانون سازی سے قبل حکم امتناعی کیوں دیا گیا؟ ثانیا یہ کہ یہ تاثر کیوں ابھرا کہ عدالت آئین و قانون کے مطابق فرائض کی بجاآوری کی بجائے کسی خاص جماعت کے لئے سہولت کاری کررہی ہے؟ان دو سوالوں پر غوروفکر سے عین ممکن ہے کہ یہ احساس دوچند ہوکہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن کرانے کے لئے جاری کئے گئے حکم میں عدالت کا انتخابی شیڈول جاری کرنا اور ایک جیسے معاملے میں پنجاب کو ترجیح دے کر خیبر پختونخوا کے معاملے کو صوبائی معاملہ قرار دینا نظری طور پر درست نہیں تھا اس سے ابہام ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ منفی تاثر ابھرا جو نہیں ابھرنا چاہیے تھا۔ عدالت یا اسٹیبلشمنٹ کسی کے فرائض میں سیاسی جماعتوں کے لئے سہولت کاری شامل نہیں اسی لئے ایک طویل عرصہ سے بعض طبقات یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ اولا تو آئینی اور سیاسی مقدمات کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز پر مشتمل دستوری بنچ ہونا چاہیے یا پھر الگ سے وفاقی دستوری عدالت تاکہ ایک تو عدالت روزمرہ کے امور نمٹانے کی بجائے سیاسی مقدمات نہ سننے لگ جائے اور دوسرایہ کہ کسی مرحلہ پر کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔ موجودہ صورتحال میں جو مسائل گھمبیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ان کے گھمبیر ہونے کی وجوہات بہرطور زیربحث آئیں گی مثلا عدالت عظمی کا قومی اسمبلی اور وزارت خزانہ کی قائمہ کمیٹی کے پچھلے تمام اجلاسوں کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرنا بالکل ایسا ہی اقدام ہے کہ ایک قانون جو ابھی قانون بنا ہی نہیں اس کے نفاذ کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا جائے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ یا کوئی ادارہ پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرنے کا مجاز نہیں پارلیمان کی کارروائی کو بذات خود آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ماضی میں (ن) لیگ اور اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے درمیان پیدا ہوئے تنازع میں غیرقانونی طور پر عدالت کو پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ فراہم کیا گیا تھا اس کے پھر جو نتائج سامنے آئے وہ کبھی بھی لائق تحسین کیا قابل ذکر بھی نہیں سمجھے گئے۔ اس مرحلہ پر اس امر کی جانب بار دیگر متوجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابی عمل کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت اور فیصلوں ہر دو میں مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے کو سامنے نہیں رکھا گیا کہ 2023 کے انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت 1998 اور 2017 کی مردم شماری سے جنم لینے والے تنازعات سے یکسر لاعلم تھی اور ہے؟ حالانکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ اصولی طور پر تو انتخابی عمل کو مردم شماری و حلقہ بندیوں کی آئینی ضرورت سے الگ کرکے دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ بہرطور مناسب ہوگا کہ وقت گزرجانے کے بعد رنجیدہ انداز میں کلمات کہنے کی نوبت نہ آئے اس لئے بہت ضروری ہے کہ بحرانوں کو مزید خوفناک بنانے میں حصہ ڈالنے کے شوق سے ہر کس و ناکس پرہیز کرے تاکہ ملکی امور آئین اور قانون کے مطابق چل سکیں اور یہ تاثر دور ہو کہ کوئی آئین سے کھلواڑ کررہا ہے اور کوئی سہولت کاری۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے یہ رائے نہ قائم ہو کہ انصاف نہیں سہولت کاری ہورہی ہے۔ یہاں ہم پارلیمان سے بھی دست بدستہ یہی گزارش کریں گے کہ بلاشبہ آئین ساز ادارہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے قانون سازی اس ادارہ کا حق ہے لیکن قانون سازی کے عمل سے یہ نہ محسوس ہو کہ ملک اور عوام کی ضرورت کے لئے قانون سازی نہیں ہورہی بلکہ کسی جنگ کے لئے خندقیں کھودی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے