پارلیمان ‘ عدلیہ مذاکرات۔۔۔۔؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیڈرز، ادارے اور عوام آئین کی پاسداری کے لئے پرعزم ہیں ، اسی حوالے سے سیاسی قیادت نے مذاکرات شروع کیے، آئین اگر کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں تویہ ہماری چوائس نہیں ڈیوٹی ہے، آئین کا تحفظ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ان کا کہنا تھاکہ اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، ہمیں بتایا گیا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، دیکھتے ہیں اب کیا ہوگا، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ آئین کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے،کوئی بہانہ تلاش نہ کیاجائے۔دریں اثناء وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے ججز کوپارلیمنٹ کے کٹہرے میں بلایا جائے گا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے بحران میں پارلیمنٹ کا دفاع کریں گے۔انہوں نے کہاکہ بحران کا سب سے اچھاحل یہ ہے تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔دوسری طرف سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس(ریٹائرڈ)ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی جانب سے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی نے سابق چیف جسٹس کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے بیٹے سمیت جس شخص کو ٹکٹ ملا ہے اس کو بھی اجلاس میں بلائیں گے۔عدالت کی جانب سے سیاستدانوں کو باہم مذاکرات کے مشورے کے بعد کی صورتحال سے قطع نظر پیش آمدہ صورتحال میں پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان مذاکرات اور باہم معاملات کو طے کرنے کے مشورے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ یہ چھوٹا منہ بڑی بات کے زمرے میں اس لئے نہیں آتا کہ عدالت اگر سیاستدانوں کو مشاورت کی ہدایت کر سکتی ہے تو پھر عدلیہ اور پارلیمان کی جاری کشیدگی میں کمی لانے کے لئے بھی اسی فارمولے کی تجویز نامناسب نہیں۔جوں جوں چودہ مئی کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے صورتحال کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے سرے سے انتظامات نہ ہونے کے باوجود مقررہ تاریخ کو انتخابات کا انعقاد ناممکن نظر آتے ہیںحکم عدولی یا پھر متنازعہ فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا معاملہ ایسی بات نہیں کہ اسے طے کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی جائے ۔اس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ آئین کی پابندی ہونی چاہئے لیکن جہاں اس حوالے سے جملہ فریق ہی اختلافات کا شکار ہوں اور ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان ہو رہا ہو اور معاملات سلجھنے کی بجائے الجھ رہے ہیں ایسے میں بہتر صورت یہی ہو گا کہ باہم رابطے سے اس صورتحال سے نکلنے کی سعی کی جائے۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن