تعلیمی اداروں پر قبضہ کیوں؟

کرم میں امن و امان کی ہنگامی صورتحال کیلئے3کالجز اور ایک سکول کو پولیس کے رہائشی مقاصد کیلئے خالی کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے اس سلسلے میں گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج صدہ، گورنمنٹ ڈگری کالج صدہ، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج صدہ اور گورنر ماڈل سکول صدہ کے سربراہان کو ڈپٹی کمشنر کی جانب سے بھیجے گئے مراسلہ کے مطابق ضلع کرم میں حالیہ بحرانوں کے دوران علاقے میں تعیناتی اور امن کی بحالی کیلئے پولیس اہلکاروں کو ڈسٹرکٹ ہنگووغیرہ سے ضلع کرم میں تعینات کیا گیا ہے ان کی رہائش کے مقصد کیلئے متعلقہ اداروں کی عمارتیں درکار ہیں اس لئے اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو فوری طورپر پولیس اہلکاروں کی تعیناتی اور دیگر متعلقہ انتظامات کیلئے اولین ترجیح کے طورپر ضلعی انتظامیہ کے اختیار میں دیا جائے۔کرم میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے تشویش اور اس خطرے پرقابو پانے کے لئے حتی المقدور امکانات و انتظامات کی اہمیت سے ذرا بھی انکار کی گنجائش نہیں لیکن اس کے لئے تعلیمی اداروں کاحصول اور طلبہ کی تعلیم کا حرج کسی طور احسن عمل نہیں انتظامیہ کے اس اقدام سے یہی تاثر ملتا ہے کہ تعلیمی ادارے بند اور امتحانات ملتوی کرنے کا عمل خدانخواستہ طوالت اختیار کر سکتا ہے کرم میں حالات کی خرابی سے انکار نہیں لیکن اس پر قابو پانے کے لئے طلب شدہ نفری کو تعلیمی اداروں میں ٹھہرانے کی بجائے دیگر سرکاری اداروں کے دفاتر اور مقامات پر پولیس فورس کو ٹھہرانے کا بندوبست کیا جاتا تو بہتر تھا۔ مشکل امر یہ ہے کہ سابق فاٹا اور موجودہ ضم اضلاع میں کئی سالوں سے تعلیمی اداروں کو اقامت گاہوں کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ جاری ہے اب بھی حالات کی بہتری کے باوجود تعلیمی ادارے خالی نہیں کئے گئے تعلیمی اداروں کو اس طرح سے استعمال کے بعد ان کی واپسی کب ہو گی اس سوال کا جواب فیصلہ کرنے والوں کو بھی معلوم نہ ہوگا نیز استعمال کے بعد ان کی دوبارہ تزئین و آرائش اور صفائی کی ذمہ داری کون نبھائے گا یہ بھی ایک سوال ہے جس سے قطع نظر اصولی طور پر تعلیمی اداروں کا اس طرح سے استعمال موزوں عمل نہیں جس پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔بہرحال اب جبکہ عارضی انتظامات کے تحت تعلیمی اداروں کو خالی کیا جارہا ہے کوشش کی جانی چاہئے کہ جیسے ہی امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو تعلیمی اداروں کو دوبارہ ان کے اصل مالکان کے حوالے کیا جائے تاکہ تعلیم کا عمل شروع ہو اور طلبہ کے تعلیم کازیادہ حرج نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار