حیاتی کی نقدی

دیہاڑی داری ضرورتیں مانع ہیں قلم مزدور کو ورنہ جی چاہتا ہے کہ ایک مسافت طے کی جائے مرشد کریم سیدی بلھے شاہ کی خانقاہ تک کے لئے۔ کچھ حال دل عرض کیا جائے مرشد کے ارشادات سنے جائیں۔ کچھ ڈانٹ ڈپٹ ہوگی حاضری میں تاخیر کی وجہ دریافت کی جائیگی۔
پھر سوچتا ہوں کیا عرض کروں گا یہی کہ روٹی نے باندھ لیا ہم روٹی کے ہوگئے۔
مرشد تو فرماتے ہیں
دنیا میں رہو مگر دنیا اوڑھ کر نہیں۔
ارے دنیا کب اوڑھی ہم نے یہ تو دنیا نے ہمیں اوڑھ لیا۔ وہ جو سبق پڑھائے تھے اساتذہ نے ان اسباق کی وجہ سے دنیا کی رغبت ہی پیدا نہیں ہوئی۔ ہاں روٹی کی مجبوری ہے۔ پیٹ کا دوزخ بھی تو بھرناہے۔ جسم موسموں کے مطابق پہننے اوڑھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
مرشد فرماتے ہیں
دنیا میں یوں رہو کہ بس رہنے کے لئے۔ اس کے تعاقب میں منہ اٹھاکے دوڑو گے تو منہ کے بل گرو گے۔ نفس کے گھوڑے کو ایڑ لگاتے رہا کرو، جس نے اپنی لگام نفس کو تھمادی وہ زمانے کی دھول میں گم ہوگیا”۔
بہت دن بلکہ یوں کہہ لیجئے لگ بھگ سال ہی ہوگیا مرشد کے حضور حاضری دیئے۔ ہم ایسے کھٹور تو کبھی نہ تھے۔ بات پھر وہی ہے جو ابتدا میں عرض کرچکا۔
حسین بن منصور حلاج کہتے ہیں
تم ہو ہم ہیں،ہم ہیں تم ہو، ہم ہی تو ہیں تم کہاں ہو۔ دجلہ کے مغربی کنارے بنائے گئے پھانسی گھاٹ کی طرف ہرکارے حلاج کو لئے جارہے تھے تو اس نے مست انداز میں آسمان کی طرف دیکھا اور کہا وقت ملاقات آن پہنچا ہے میں پہلے سے جانتا تھا میرے مرنے کا شان دار اہتمام کراو گے۔
ہرکاروں کے درمیان مست و بے خود لیکن باوقار انداز میں چلتے چلتے حسین بن منصور حلاج ساعت بھر کیلئے رکے، پلٹ کر ہرکاروں (سپاہیوں)کے پیچھے چلے آتے ہجوم کو دیکھا اور گویا ہوئے، بس چند منٹوں کی تو بات ہے ہم سولی پر خطبہ دیں گے۔
سپاہیوں نے پشت پر ہاتھ باندھے عارضی طور پر بنائے گئے پھانسی گھاٹ کی سیڑھیاں حلاج نے وقار سے طے کیں۔ دجلہ کے مغربی کنارے کا میدان انسانوں سے اٹا ہواتھا۔ تاحد نظر لوگ ہی لوگ تھے۔ حلاج مسکرائے اور بولے۔
لوگو! یہ امتحانِ عشق ہے، محبوب کے لئے جان دینا سعادت ہے اس کے لئے جان لینے سے۔ یاد رکھنا ہم ہی زندہ رہیں گے کہ ہمیں ہی زندہ رہنا ہے یہ ہمارے محبوب کا وعدہ ہے۔
حسین بن منصور حلاج، سرمد، سامت، مرشد کریم بلھے شاہ یا شاہ حسین، سبھی اس کو پانے کے لئے نکلے اور فتووں کی بھینٹ چڑھے۔
مطالعہ نے دستک دی۔ سرمد کو جانب مستقل لے جاتے ہوئے نواب انشا اللہ خان سپاہیوں کے درمیان سے آگے بڑھے اور بولے،
دیکھو دیوانے اب بھی وقت ہے پابند شریعت ہوجاو جان بخشی جائے گی۔ سرمد نے جھومتے ہوئے کہا
اپنا کام کرو دربار کے دفتری، دیوانہ بھی کہتے ہو اور پابند شریعت ہونے کی دعوت بھی دیتے ہو تم کیا جانو شریعت کیا ہے، عالمگیر کا تخت خون پر ہے۔
ساعت بھر کے لئے سرمد رکے اورپھر بولے
ملاقات کا اہتمام اس نے کیا مرضی ہماری بھی شامل تھی، یار سے بھاگنے والے عاشق نہیں منکر ہوتے ہیں
چلئے ایک بار پھر مرشد کریم سیدی بلھے شاہ کے حضور چلتے ہیں۔ مرشد فرماتے ہیں
مجھے لوگوں پر حیرانی ہوتی ہے دنیا اور اس کی لذتوں کے عشق میں خود کو برباد کرلیتے ہیں۔
سامت یاد آئے فراعین مصر کے باغی سامت۔ دربار میں سامت کے لئے پھانسی کا حکم سنایا گیا تو اس نے رقص شروع کردیا۔ سپاہیوں نے زنجیروں کو پکڑ کر رقص روک دیا۔ سامت بولے،
"بس تمہارے بس میں یہی ہے لیکن میرے نغموں کو رقص سے کیسے روکو گے۔
سچ یہی ہے انکار میں ہوتے ہوئے رقص کو کون روک پایا کوئی بھی نہیں۔
مرشد کریم سیدی بلھے شاہ فرماتے ہیں
جس نے خود کو اس کے حوالے کیاوہ دنیا سے نہیں ڈرتا۔ ارے بھلا دنیا سے ڈرنا کیسا یہ تو راکھ کے سوا کچھ نہیں۔ رحمن بابا فرماتے ہیں
سب فنا کے قصے ہیں جنہیں لوگ زندگی سمجھ رہے ہیں، زندگی تو منصور حلاج کو ملی۔
معاف کیجئے گا کسی گرما گرم موضوع پر لکھنا چاہیے تھا لیکن خیر جانے دیجئے آج یہی پڑھیئے جو حرف جوڑ کے لکھا ہے سیاست کل سہی۔ شاہ لطیف فرماتے ہیں،
جس نے نفس کی راکھ پر رقص کیا وہی راز ہستی سے باخبر ہوا
شاہ لطیف نے ہی کہا تھا
سرمدی نغمہ اپنے خون میں غسل لے کر الاپا جاتا ہے۔ مجھے یاد آیا ایک دن ہمارے دوست اور سرائیکی وسوں کے محبوب، رانا محبوب اختر نے مجھ سے کہا تھا
شاہ جی شوق سے منصور و سرمد کے راستے پر چلو لیکن جو ذمہ داریاں شعوری طورپر اٹھائی ہیں ان سے عہدہ برآ ہونا بھی واجب ہے۔
میں نے اس محبوب دوست کی مرشد بلھے شاہ کی خانقاہ میں شکایت لگائی تو مرشد بولے
اپنے دوست سے کہنا، زندگی سے فرار ہونے والوں کے پاس اپنا کچھ نہیں ہوتا، جو نفس کے منہ زور گھوڑے کی سواری سے بچتے ہیں وہ زندگی کو پورے قامت سے سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں
رخصت ہونے کا لمحہ آیا تو مرشد نے فرمایا
نیت کے کھوٹ اور حرام کے لقموں سے بچ کر جینا اصل زندگی ہے۔
نیت کے کھوٹ کی کیا واحد صورت حرام کھانے سے بچنا ہے میں نے عرض کیا ؟ مرشد بولے "جو پاس نہ ہو دوسرے کے پاس دیکھ کر پیدا ہونے والی حسرت بھی کھوٹ جو ہے اس پر طمع کا سانپ بن جانا بھی کھوٹ”
بہت سارے برس بیت گئے مجھے یاد پڑتا ہے ایک دن میں نے یہی سوال استاد محترم کے سامنے رکھا سیدی عالی رضوی مسکرائے اور بولے ۔ زیادہ نہ سوچا کرو بس جو طمع سے بچ جاتے ہیں وہ نیت کے کھوٹ حسد اور تکبر سے محفوظ رہتے ہیں آدمی اصل میں شکرگزاری سے بھاگتا ہے طلب کا اسیر ہوکر اسی لئے سارے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ پچھلی شب فقیر راحموں نے کہا شاہ جی چلو کسی دن سیدی شاہ شمش رح کی خانقاہ پر حاضری دیتے ہیں بہت دن ہوگئے امڑی سینڑ اور شاہ رح کے شہر نہیں گئے میں نے ایک حسرت سے ملتان کی طرف دیکھا جہاں جانے جینے کیلئے ہرپل تیار رہتا تھا مگر اب کئی کئی ماہ گزرجاتے ہیں نہیں جا پاتا اس محرومی کی ایک سے زائد وجوہات ہیں خیر ان پہ کیا بات کرنی فقیر راحموں نے سیدی شاہ شمش رح کا نام لے کر نئی دنیا کے دروازے وا کر دیئے ملتان خود ایک جہان ہے کامل و محبوب جہان یہ فقط میرے جذبات نہیں آپ کسی بھی ملتانی سے پوچھ لیجے سبھی کا جواب یہی ہوگا کہ ملتان ہے اِک جہان ملتان کا ذکر چھڑا یادوں نے دستک دی جو اور جتنا یاد آرہا ہے کالموں کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں لیکن
کالم کے دامن میں اس سے زیادہ گنجائش نہیں۔ اب فقط یہ عرض کرنا ہے کہ حلاج نے کہا تھا
موت میں حیات ہے۔
مرشد فرماتے ہیں
موت تو ایک جام ہے جس نے پیا وہ یار سے ملاقات کو بڑھ گیا۔ اکثر دوست اور پڑھنے والے پوچھتے ہیں موت کا ذکر کرنے کے پیچھے مایوسی یا محرومی تو نہیں ؟ ایسا نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ قیامت تک کی حیاتی کی نقدی کون لایا کس کو ملی حیاتی کی نقدی ہو اور ختم نہ ہو یہ کیسے بس جیسے سانسوں کی ڈور کٹ جانا لازم ہے ویسے ہی حیاتی کی نقدی کا ختم ہونا واجب ہے ہم تو ویسے بھی بونس پر جی رہے ہیں اور بونس ہوتا ہی کتنا ہے سال میں ایک ماہ کی تنخواہ کے مساوی اب رہا حساب تو یہ بونس دینے والا مالک جانے کتنا دیا کتنا باقی ہے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام