پاکستان میں سیاست و جمہوریت کی خرابیاں

سیاست و جمہوریت کیا ہے اور اس کے تقاضے و مطالب و ڈیمانڈ کیا ہیں میرے خیال میں آج کے دور میں تعلیم یافتہ لوگوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں پاکستان کا حصول اور بقاء جمہوری اصولوں کی پاسداری میں پوشیدہ ہے، بانی پاکستان نے برطانیہ ہی کے جمہوری اصولوں اور قومیت کی تعریف کو استعمال میں لاتے ہوئے انگریز بہادر کو قائل کرکے مجبور کیا کہ ہندوستان میں جداگانہ انتخابات کے اصولوں پر عمل کرنے دیا جائے اسی اصول کے تحت مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور اکثریت حاصل کرکے تحریک پاکستان کے تحت الگ وطن کے مطالبے کو تسلیم کروایا۔
اس بات میں دوسری رائے نہیں کہ جمہوریت میں مسلمانان عالم کے مذہب و عقیدہ کی رو سے چند بنیادی قباحتیں ہوسکتی ہیں لیکن آج کے بین الاقوامی معاشروں کیلئے جمہوری نظام سے بہتر نظام بہرحال دنیا میں کہیں رائج نہیں لہٰذا پاکستان میں اگر کوئی (مقتدر طبقات) چاہتا ہے کہ یہاں بھی ایک فلاحی ریاست قائم ہو جائے تو جمہوریت، صحیح معنوں میں جمہوریت کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مسلسل جمہوریت کا شور و غوغا تو بہت برپا کیا اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ کے سبب سیاست کے کھیل میں مذہب کو بھی خاطرخواہ کردار دینے سے گریز نہیں کیا گیا اور علامہ محمد اقبال نے معلوم نہیں کس پس منظر میں شعر کہا تھا کہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی چنگیزی لیکن ہمارے ہاں اس کا استعمال مذہبی سیاسی جماعتوں کے ہاں آج بھی جاری و ساری ہے لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ 1973ء تک پاکستان میں آئین کے بغیر لشٹم پشٹم آگے رینگتا رہا، آج یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ پاکستان کو سر زمین بے آئین بنائے رکھنے میں سب سے بڑا کردار یہاں کے اشرافیہ (جو اب بدمعاشیہ اور مافیا کی صورت اختیار کرچکا ہے) کا رہا ہے، پاکستان میں جاگیرداروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں نے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے ساتھ اپنے آپ کو ایک ایسے گروہ میں ڈھالا جو بتدریج اپنے آپ کو آئین کا متبادل سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا بلکہ بعض طبقات تو اس پر فخر اور حق جتانے سے بھی گریز نہیں کرتے او راگر کسی مفکر، دانشور، شاعر، ادیب اور استاد نے ان کو روکنے ٹوکنے کی غلطی کی تو دار و رسن کے مستحق ٹھہرے کیونکہ وہ اپنی بات کو حرف آخر اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے رہے۔
جو میں کہہ دوں تو سمجھا جائے مجھ کو دار کے قابل
جو تو کہہ دے وہ تیری بزم کا دستور بن جائے
وطن عزیز میں اگر جمہوریت کے سادہ ترین مفہوم و معنیٰ پر عمل کرنے دیا جاتا کہ جمہوریت، جمہور (اکثریت) کی رائے کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کا نام ہے’ اگر یہاں اس نظام حکومت کو چلنے دیا جاتا تو معاشرے کی ہر سطح پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے نظر آتے لیکن ہائے رے بدقسمتی اور شامت ! کہ یہاں تو جمہوریت کو بھی اشرافیہ نے ایسے انداز میں اچک لیا کہ جمہوریت، بدترین آمریت نظر آنے لگی حالانکہ کہا تو یہی جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت، اچھی آمریت سے اچھی ہوتی ہے، وطن عزیز میں موروثی سیاست نے ایک جمہوریت کو رواج دیا کہ انتخابات و سرمائے نے آپس میں جزو لاینفک کا گٹھ جوڑ بنا لیا، دنیا میں جہاں کہیں سرمائے کے زور پر جمہوری نظام وجود میں آتا ہے وہاں کی حکومتیں جمہوری لبادے میں عوام کی خدمت کی بجائے استعماری حکومتوں کی طرح راج کرنے لگتی ہیں۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا جائزہ لیا تو 1947 ء سے 1971ء تک ایک ایسا دور رہا ہے جس میں جمہوری چال چلن رائج کرنے کی کوششیں نظر آتی ہیں اور پھر 1977ء سے 2021ء تک جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہوجاتا ہے اور اس دوران زندگی کے ہرشعبے میں زوال ہی زوال نظر آئے گا، اگر وطن عزیز میں صحیح معنوں میں جمہوریت رائج ہوجاتی تو کوئی وجہ نہیں بہترین افرادی قوت اور وسائل کی موجودگی میں ہم آج کوریا اور جاپان کے ہم پلہ نہ ہوتے۔1971ء میں ہم سے علیحدگی اختیار کرنے والا بنگلہ دیش بھی اگرچہ وہاں بھی جمہوریت کا کوئی آئیڈیل چلن نہیں لیکن شاید ہم سے بہتر اس لئے بنے کہ وہاں کی افواج سے کاکول کے اثرات ختم ہوئے اور آج زرمبادلہ کے ذخائر اور ترقی و کارکردگی کے لحاظ سے ہم سے بہت آگے ہے۔
اشرافیہ کے تحت چلنے والی حکومتوں میں مادہ پرستی اس حد تک زور پکڑنے لگتی ہے کہ افراد و شخصیات امیر ترین بنتے چلے جاتے ہیں اور وطن مفلسی کا شکار ہوجاتا ہے، وطن عزیز اس کی بدترین مثال ہے، نوازشریف، آصف علی زرداری، جنرل عاصم باجوہ، جنرل قمر باجوہ اور بعض دیگر یہاں تک پراپرٹی اور بزنس ٹائیکون کروڑوں اربوں ڈالر کے مالک ہیں لیکن پاکستان تین چار ارب ڈالر کے قرض کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے سربسجود ہے لیکن پھر شاید مراد بر آنے میں مشکلات حائل ہیں، وطن عزیز پر حکمرانی کا حق جتانے والوں کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت بیرونی ملکوں میں انوسٹ شدہ رقوم میں سے اتنا تو ملک کے اندر لے آئو کہ وطن عزیز دیوالیہ ہونے سے بچ جائے لیکن اشرافیہ کبھی اس کا نہ سوچے گا اور نہ ہی اس پر عمل ہوگا کیونکہ اشرافیہ کو یہ خوف تو ہے ہی نہیں کہ انتخابات میں عوام کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں جمہوریت ہو کہ آمریت، سیاہ و سفید کی ملکیت اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
افلاطون نے اپنی مثالی ریاست کی حکمرانی کیلئے دانش (وزڈم) کو لازمی قرار دیا تھا، دانش ہی انسانوں کو زندگی کے سفر کی صحیح سمت کا تعین کراتا ہے جبکہ وطن عزیز میں حکومت کی سطح پر یہ جنس بہت نایاب اور بعض اوقات تو عنقا ہی بن جاتا ہے۔ اگرچہ اب دنیا کے دیگر بہت سارے ملکوں میں دانش و بصیرت کی وہ فراوانی نہیں جو کبھی ہوتی تھی لیکن آج کے ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کے اہم شعبوں میں کم از کم مینجمنٹ کی کار فرمائی ضرور نظر آتی ہے، وہاں نصف صدی کے ضروریات و تقاضوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی ہوتی ہے جبکہ ہم آج تک 1950ء کے عشرے کی پانچ سالہ منصوبہ بندی کے چکروں سے نہیں نکل سکے۔
وطن عزیز میں آج بھی اکثر و بیشتر مینجمنٹ کی سیٹوں پر براجمان لوگوں میں سے بہت کم افراد ایم بی اے کی ڈگری کے حامل ہوتے ہیں اور اگر کہیں میسر کبھی آجائیں تو فکر و نظر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تعلیم کے ساتھ تربیت کا عنصر بہت ضروری ہے جبکہ یہاں اپنا تو یہ حال ہے کہ کہیں تعلیم (ڈگری) بہت ہے لیکن تربیت سرے غائب اور کہیں تربیت ہو تو مطلوبہ تعلیمی معیار کی سخت کمی ہوتی ہے، نتیجتاً وطن عزیز قوم بنی اسرائیل کی طرح وادی تیہ میں پچھتر برسوں سے تعین سمت کے بغیر سرگرداں پھر رہا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کے دانشوروں اور اہل بصیرت سے استفادہ کرتے ہوئے وطن عزیز کی نوجوان نسل کو سٹیٹ وژن اور مشن کا تعین کرا دیا جائے ورنہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں
بہت جلد ہی پرندہ وہ تھگ گیا جس نے
بغیر سمت کے جاری اڑان کو رکھا

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی