بلوچستان کی آبادی

ڈاکٹروں کے ہائوس جاب اور وظیفے کا مسئلہ

ٹرینی میڈیکل آفیسرز کو وظائف جاری نہ کرنے کی وجہ سے صوبہ کے سرکاری ہسپتالوں میں دوسرے روز بھی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ڈیوٹی کابائیکاٹ اور احتجاجی مظاہرے میں دوسرے ڈاکٹرز بھی شامل ہونا ڈاکٹر برادری ہسپتال انتظامیہ اور محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ عوام کے لئے یہ سب سے زیادہ متاثر کرنے والا قدم ہے۔ ٹرینی میڈیکل آفیسرز کم ترین وظیفہ کے ساتھ دن رات ہسپتالوں میں بیس گھنٹے مسلسل ڈیوٹی کرتے ہیں خیبرپختونخوا میں ٹی ایم او کا وظیفہ ملک کے دوسرے صوبوں اور اسلام آباد کے مقابلے میں سب سے کم شرح پر ہے2017 سے لے کر اب تک کے ساڑھے 5 سال سے زائد عرصے سے وظیفہ کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے اس کے باوجود گزشتہ کئی ماہ سے ٹی ایم اوز کو وقت پر وظیفہ نہیں مل رہا ہے جس کی وجہ سے انہیں مالی مسائل کا سامنا ہے متعلقہ اداروں بشمول پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے مذکورہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے متعدد مرتبہ درخواست کی گئی لیکن اس ماہ پھر وظائف کے اجراء میں تاخیر کی گئی حالانکہ ان ٹرینی میڈیکل آفیسرز کو پرائیویٹ کلینک کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی وہ کوئی اور کام کر سکتے ہیں چنانچہ یہی وظیفہ ان کی کفالت کا واحد ذریعہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک قابل توجہ مسئلہ ان نوجوان ڈاکٹروں کابھی ہے جو بیرون ملک سکالر شپ یا پھر اپنے طورپر تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹتے ہیں اعلیٰ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ ا لتحصیل ہونے کے باوجود ان کو کسی بھی ٹیچنگ ہسپتال میں ہائوس جاب کا موقع نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے ان کی پریشانی اور مشکلات کا اندازہ مشکل نہیں بدقسمتی سے یہاں ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جو آسانی کا نہیں بلکہ مشکلات کا باعث اور سدراہ زیادہ ثابت ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ نوجوان ڈاکٹر بالخصوص اور ڈاکٹر برادری بالعموم بے چینی کا شکار ہو کر مطالبات و احتجاج کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے ہزاروں بلکہ لاکھوں طالب علموں میں سے چنیدہ ان جواہر قابل سے اس ناروا سلوک کی کوئی توجیہ بھی ممکن نہیں محکمہ صحت اورتمام ٹیچنگ ہسپتالوں کی انتظامیہ کو اس صورتحال پر دوبارہ غور کرنا چاہئے نوجوان ڈاکٹروں کو ہائوس جاب کے مواقع سے محروم نہ کیا جائے اور ان کے وظائف میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اتنی محنت کے بعد بھی اپنے خاندان کا سہار بننے کی بجائے ان پر بوجھ ثابت نہ ہوں طبی تعلیم کی طرف رجحان میں کمی آنا شروع ہوجائے اور قابل طالب علم دوسرے شعبوں کو ترجیح دینے لگیں تو علاج کا سارا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے کوشش ہونی چاہئے کہ یہ نوبت نہ آئے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ