فلسطینیوں کی تباہی کے پچہتر برس

چنددن قبل چودہ مئی کو فلسطینی عوام نے اسرائیلی قبضے کے پچہتر برس مکمل ہونے پر” یوم نکبہ” یعنی تباہی کے دن کے طور پر منایا ۔جب فلسطینی یہ دن منارہے تھے تو اسرائیل کی فوجیں ان پر میزائل داغ رہے تھے جن میں پینتیس افراد جاں بحق ہوئے ۔رواں برس اب تک اسرائیلی حملوں میں ایک سوستر سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔اسرائیلی کلینڈر کے مطابق اپریل کے ماہ میں اسرائیل نے اپنا پچہترواں یوم آزادی منایا جبکہ اسی تسلسل میں فلسطینیوں نے یوم نکبہ منایا۔اسرائیل کے وجود کی دیوہیکل اور فلک بوس عمارت فلسطینیوں کے خوابوں اور ان کے سوختہ گھروں اور بے چین روحوں کی راکھ پر کھڑی ہے ۔جہاں آج یہ فلک بوس عمارت ایستادہ ہے کبھی یہاں فلسطینیوں کے ہنستے بستے گھر ،کھیت اور باغات ہوا کرتے تھے مگر وقت کا دھارا ایسا پلٹا کہ یہ سب کچھ خواب وخیال ہو کر رہ گیا اور فلسطینیوں کی چوتھی اور پانچویں نسلیں غزہ کی پٹی ُِاُردن شام اور مصر کے پناہ گزین کیمپوں میں خوار ہو رہی ہے اور مشرقی یورپ ،مغربی یورپ امریکہ کینیڈا سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے صیہونی یہاں ہر شے کے مالک ومختار بن بیٹھے ہیں۔اب وہی لوگ فرزندان زمین سے ان کا نام پتا پوچھتے ہیں ،شناخت معلوم کرتے ہیں ان کی نقل وحرکت پر پابندیاں لگاتے ہیں۔وقت کا بے رحم کھیل سرزمین بیت المقدس میں پچہتر برس سے جاری ہے۔مشرق وسطیٰ کے اس زخم سے خون اسی وقت رسنا شروع ہوگیا تھا جب برطانیہ دنیا کی سپر طاقت اور فاتح َ عالم تھا اور اس کی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا ۔1918میں برطانیہ نے ان علاقوں کو ایک صہیونی جنرل ایلیسن بے کی قیادت میں فتح کیا اور پھر یہ جنرل اسی علاقے پر تعینات کر دیا گیا ۔یہ برطانوی فوج کا صیہونی یونٹ تھا اور اسے ایک گہری منصوبہ بندی کے نتیجے میں فلسطینی علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔اس سے پہلے برطانیہ یہ اعلان کر چکا تھا کہ اس علاقے میں یہودیوں کو ایک گھر دیا جائے گا۔1920کے عشرے میں ہی فلسطینی عوام کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان پر ایک اُفتاد پڑنے والی ہے۔انہوںنے برطانوی فوجی یونٹ کی سرگرمیوں پر احتجاج اور مزاحمت کا آغاز کر دیا تھا کیونکہ یہ صیہونی جنرل دنیا بھر سے یہودیوں کو جہازوں پر ڈھو ڈھو کرفلسطین میں اکٹھا کر رہا تھا اور فلسطینیوں کی زمینوں اور املاک پر حملے شروع کر دئیے تھے اور اس کام کے لئے مسلح ملیشیائیں منظم کی جانے لگی تھیں۔یہ ملیشیائیں مقامی فلسطینیوں کے خلاف جرائم کرنے لگی تھیں اور انہیں بغاوت اور سازش کے نام پر مختلف انداز سے انتقام کا نشانہ بنایا جانے لگا تھا۔فلسطینی اس عمل کے خلاف سیاسی اور سفارتی کوششوں کے قائل تھے اس لئے وہ اپنے وفود کبھی لندن میں اعلیٰ حکام تک اپنی فریاد پہنچانے کے لئے بھیجتے تو کبھی قریبی عرب حکمران اشرافیہ کو مدد کے لئے پکارتے مگر یہ سب بے سود ثابت ہوا۔1936کے زمانے میں فلسطین میں یہ کھیل مقامی اور آبادکاروں کی واضح لڑائی میں بدل گیا تھا اور فلسطینی اس عمل کے خلاف عوامی مزاحمت کی تحریکیں چلا رہے تھے۔ان فلسطینیوں کو برطانوی فوج گرفتار کرکے اذیتیں دیتی ۔یہاں تک کہ 14مئی
1948کو اسرائیل کے نام سے ایک ایک باقاعدہ ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ۔اس کے چند دن بعد ہی گردونواح کی چار عرب ریاستوں نے اسرائیل پر حملہ کردیا اور پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی مگر تیرکمان سے نکل چکا تھا ۔اسرائیل کو بنانے والے اس کو بچانے پر کمر بستہ تھے اور عرب حکمران اشرافیہ کے اقتدار بھی انہی بنانے اور بچانے والوں کے مرہون منت تھے۔یوں رفتہ رفتہ عرب اشرافیہ ہتھیار ڈالتی چلی گئی ایک کے بعد دوسرا عرب ملک اسرائیل کے آگے کسی نہ کسی معاہدے کے نام پر ڈھیر ہوتا چلا گیا اور فلسطینی اپنی مزاحمت میں یکا وتنہا رہ گئے۔آج حالات یہ ہیں کہ فلسطینی اسرائیل کی جانب ایک پٹاخہ بھی پھوڑیں تو جواب میں خطرناک میزائلوں کی بارش درجنوں افراد کی جانیں لیتی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت مغربی کنارے ،غزہ کی پٹی ،شام ،اُردن اور مصر سمیت بہت سے ملکوں میں ساٹھ لاکھ کے قریب فلسطینی بے وطن ہو کر رہ گئے ہیں۔فلسطین آج بھی مزاحمت کی لازوال داستانیں اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں ۔دنیا ان کے دکھوں اور غموں کا حساب تو رکھتی ہے مگر کسی کو اسرائیل سے اس کا حساب مانگنے کی جرات نہیں ہوتی ۔جس سے مشرق وسطیٰ کا یہ تاریخی تنازعہ پوری طرح آگ اُگلتا جا رہا ہے۔فلسطینیوں کے دکھوں اور کشمیریوں کے دردوکرب کی کہانی جہاں ایک ساتھ شروع ہوتی ہے وہیں یہ ایک ساتھ آگے بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔انیس سوتیس کی دہائی میں جب فلسطینی عوام آنے والے حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے عوامی مزاحمت کو آگے بڑھا رہے تھے یہی وہ دن تھے جب کشمیر میں بغاوت اور بیداری کی لہریں خاصی زورآور ہو چکی تھیں ۔کشمیری اپنی ایک سیاسی جماعت بنا چکے تھے اور انیس سو اکتیس میں بائیس مسلمانوں کی شہادت کا واقعہ کشمیرکے کوہ ودمن میں آگ لگا چکا تھا ۔فلسطینیوں اور کشمیریوں کے” یوم نکبہ ” یعنی تباہی کے دنوں میں چند ماہ کا فرق ہے ۔کشمیری 27اکتوبر 1947کو یوم سیاہ مناتے ہیں جب پہلا بھارتی فوجی دستہ سری نگر ائر پورٹ پر اُترا اور فلسطینی 14مئی1948کو یوم نکبہ کے طور پر یاد رکھے ہوئے ہیں جب اسرائیل کی ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا گیا ۔اب ان دونوں مسلما ن آبادی کے علاقوں کا مقدر ایک سا ہو کر رہ گیا ہے بالخصوص پانچ اگست دوہزار انیس کے بھارتی فیصلے کے بعد کشمیر پر وہی موسم سایہ فگن ہے جو انیس سو اٹھارہ کے بعد فلسطین کی آبادیوں پر لہرانے لگا تھا ۔بھارت کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرکے اسرائیل سٹائل میں ہی کشمیریوں کی زیادہ سے زیادہ زمینیں اور املاک اپنے کنٹرول میں لے رہا ہے ۔ہند واکثریتی علاقوں میں مقامی آبادی کو ڈیفنس کمیٹیوں کے نام پر مسلح کیا جا رہا ہے جو آگے چل کر مسلح ملیشیائوں کا رنگ اپنا سکتی ہیں اور ان میں بھارت بھر سے سخت گیر اور انتہا پسند لاکر بھرتی کئے جا سکتے ہیں ۔اس وقت کشمیر میں بھارت کے لیفٹیننٹ گورنر فلسطین کے جنرل ایلیسن بے کا کردار ادار کرتے ہوئے کشمیر پر اپنی گرفت قائم کر نے میں مصروف ہے اور عوامی احتجاج کے سارے راستے بند کر دئیے گئے ہیں ۔عرب حکمران اشرافیہ کی طرح پاکستان کو بھی اس حد تک مضمحل کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے معاشی مسائل کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا ہے۔عالمی قوتوں کو بھی اس عمل سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے وہ خود اس عمل کے آغاز اور ابتدا کا موقع فراہم کر چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار